امریکی ترقی میں مسلمانوں کا کردار اورمتعصب ڈونلڈ ٹرمپ
مسجد شہید ہو چکی تھی ۔امام سو رہا تھا ۔یہودی کلرک نے 28جنوری 2017کی صبح 2بج کر پانچ منٹ پردھواں اٹھتا دیکھاتوفائر بریگیڈ کومسجد میں لگی آگ بجھانے کیلئے بلا لیا۔مسجد کا نام اسلامک سینٹر آف وکٹوریا تھا اور یہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن کے جنوب مغرب میں 115میل دور وکٹوریا نامی علاقے میں واقع تھی ۔مسجد آن لائن سکیورٹی سسٹم کے ساتھ منسلک تھی۔ امام گھر بیٹھے ریموٹ کنٹرول اور آن لائن سسٹم کے ذریعے مسجد کی سکیورٹی چیک کر تا تھا۔صبح سویرے جب وہ مسجد جانے کیلئے نکلا تو اس نے دیکھا کہ مسجد کا سکیورٹی آلارم بند ہے اور دروازے بھی کھلے ہوئے ہیں اس نے جلدی سے گاڑی نکالی اور مسجد پہنچ گیا ۔جب وہ پہنچا تو فائر بریگیڈ کا عملہ ، ٹیکساس مارشل آفس،وفاقی بیورو آف ٹوبیکو ، وفاقی بیورو آف فائر آرمز اور وفاقی بیورو آف ایکسپلوسیو پہلے سے ہی آگ بھجانے میں مصروف تھا ۔
آگ بجھائی گئی اور لوکل قوانین کے تحت انویسٹی گیشن شروع ہو گئی ۔ابھی انویسٹی گیشن شروع ہوئے 48گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ انیس ہزار امریکیوں نے مسجد کی دوبارہ تعمیر کیلئے آن لائن ویب سائٹ کے ذریعے 9لاکھ ڈالر عطیہ کر دیے ۔اور اس کے بعد امریکی یہودیوں نے جو سلوک امریکی مسلمانوں کیساتھ کیا اس نے بین المذاہب ہم آہنگی کی لا زوال مثال قائم کر دی اور تاریخ امریکہ کو اس مثال کی بدولت ہمیشہ دنیا کی سب سے کامیاب جمہوریت قرار دیتی رہے گی ۔مسجد میں آگ لگنے کے بعد یہودی کنیسہ کے صدر نے یہودی کمیونٹی کو اکٹھا کیا ۔مسجد کے جلنے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور مسجد کے شہید ہونے کو اپنے کنیسہ کے شہید ہونے کے برابر قرار دیا ۔اس کے بعد تمام یہودی کمیونٹی چل کر مسجد کے سربراہ شاہد ہاشمی کے گھر گئی۔مسلمانوں کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کرچلنے کا یقین دلایا اور اپنے کنیسہ کی چابیاں شاہد ہاشمی کے حوالے کر دیں اور انہیں اجازت دی کہ جب تک آپ کی مسجد دوبارہ تعمیر نہیں ہو جاتی وکٹوریا میں آباد تمام مسلمان ہمارے کنیسہ میں نماز ادا کر سکتے ہیں ۔اس نے مزید کہا کہ وکٹوریا میں ہم 25سے 30یہودی رہتے ہیں اور مسلمانوں کی تعداد 100سے زیادہ ہے ۔ہمارے پاس بہت سی عمارتیں ہیں ہم اپنی عبادات وہاں ادا کر لیں گے ۔
مسلمان امام نے یہودی ربی کا شکریہ ادا کیا اور فنڈ ریزنگ ویب سائٹ پر پیغام دیا کہ یہودی کمیونٹی کی طرف سے دی گئی محبت ،قربانی ،اپنائیت اور سب سے بڑھ کر مالی معاونت ہی حقیقی امریکی سپرٹ ہے اور اسی سپرٹ کی بدولت امریکہ آج سپر پاور ہے ۔
آپ امریکی یہودیوں کا مسلمانوں سے سلوک اور مسلمانوں کے دل میں ان کی محبت کا یہ واقعہ ذہن نشیں کریں اور اس کا موازنہ ڈونلڈ ٹرمپ کی7 مسلمان ممالک پر لگائی گئی پابندی سے کریں تو آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام مخالف سمت کی کشتیوں کی سوار ہیں ۔اور آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ امریکی آج بھی جارج واشنگٹن کے آزاد کرائے گئے متحدہ جمہوری امریکہ میں رہنا چاہتے ہیں نہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بکھرے ہوئے تعصب زدہ اور غیر جمہوری امریکہ میں ۔امریکی آج بھی اُس امریکہ کو پسند کرتے ہیں جس میں جارج واشنگٹن نے امریکہ کی آزادی کے بعد فوج کی کمان مسلمان جرنیل کے سپرد کر دی تھی جس میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے اور کسی سرکاری نوکری کے حصول کیلئے کوئی سرکاری مذہب کی بندش نہیں اور جس کے ناسا ریسرچ سینٹر میں 70فیصد مسلمان کام کرتے ہیں اور جس کے ناسا ریسرچ سینٹر کا چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ولید جیسا ہونہار امریکی مسلمان ہے ۔امریکی جانتے ہیں کہ امریکہ کو جمہوری امریکہ بنانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اباؤ اجداد کو کوئی قربانی دینی نہیں پڑی اور نہ ہی اس کے اباؤ اجداد نے امریکہ کی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکہ کو آزاد کروانے کیلئے شمالی افریقی عرب محمد اور یوسف بن علی ورجینیا کے محاذپر 1775سے 1783تک جنگ لڑتے رہے اورسلام نامی عرب مسلمان نے برطانوی میجر جنرل JOHN PITCAIRNکو گولی مار کر قتل کیا تھا جو امریکہ کی آزادی کیلئے سنگ میل سے کم نہیں تھا۔امریکیوں کو معلوم ہے کہ موروکو پہلا اسلامی ملک تھا جس نے سب سے پہلے امریکہ کوآزاد ریاست تسلیم کیا تھا اور امریکہ کیساتھ پہلا امن اور دوستی کا معاہدہ طے کیاجوکہ آج تک قائم ہے اوریہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی UNBROKEN TREATYبھی ہے ۔امریکی جانتے ہیں لیکن ٹرمپ یہ نہیں جانتا کہ بنگلہ دیشی امریکی نژاد فضل الرحمن خان جس کو سٹرکچرل انجینئرنگ کا آئن سٹائن کہا جاتا ہے ایک مسلمان ہے اور اس نے ہی پوری دنیا میں پہلی مرتبہ ٹو، تھری ،فور فریمز اور ٹیوب سٹرکچر کو متعارف کروایااورآج امریکہ کی تمام بلند وبالا اور آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں امریکی مسلمان فضل الرحمن خان کی مہارت کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔اگر ٹونز ٹاورز کو گرانے کا الزام مسلمانوں پر ہے تو اس بات کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے ان ٹاورز کی تعمیرمیں کلیدی کردار بھی اس مسلمان سٹرکچرل انجینئرکا ہی تھا اور یہاں تک کہ ٹرمپ ٹاورز بھی اسی امریکی نژاد مسلمان کی کاوشوں کے مرہون منت ہیں۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی یہودیوں نے مسلمانوں کیلئے اپنے کنیسہ کھولنے کی اجازت دیکر پوری دنیا کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ ٹرمپ کے بغیر تو چل سکتا ہے لیکن مسلمانوں کے بغیرمتحد نہیں رہ سکتا۔اوراگر ٹرمپ نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کا جوخون امریکہ کو آزاد کرانے کیلئے استعمال ہوا تھاوہی خون امریکہ کی بنیادیں ہلانے کا باعث بنے گااور یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کو یونائیٹڈ اسٹیٹس آف رشیا بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔