فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر351

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر351
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر351

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک دن وہ ہمارے پاس آئے۔ سخت شکوہ کیا اور ہمیں بُرا بھلا بھی کہا۔ ہم نے پوچھا ’’بھائی اس قدر ناراض ہونے کا سبب تو بتاؤ۔‘‘
کہنے لگے ’’تم کہانیاں لکھتے ہو۔ ہر ایک تمہاری بات مانتا ہے۔ کیا میری سفارش نہیں کر سکتے؟ یار مجھے تو اب فلم والے جرنلسٹ ہی سمجھنے لگے ہیں۔ اداکاری کا موقع کوئی نہیں دیتا۔‘‘
ہم نے انہیں چائنیز ریستوران میں لے جا کر کھانا کھلایا۔ گرین ٹی پلائی۔ ایک عدد سگار بھی پیش کیا۔ جب ان کا موڈ بہت خوشگوار ہوگیا تو ہم نے انہیں سمجھایا کہ بھائی ہماری مانو تو فلم کا پیچھا چھوڑ دو۔ ہیرو تو تم بن نہیں سکتے۔ دوسرے کرداروں میں ’’شامل باجا ‘‘بن کر رہ جاؤ گے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تم خاصے سرگرم صحافی بن چکے ہو۔ لوگ اب تمہیں صحافی کے طور پر ہی جانتے ہیں۔ مثلاً ہم ہی کو دیکھ لو۔ کسی فلم کے لیے اداکاروں کے ناموں پر غور کرتے ہوئے کبھی تمہارا نام ہی ذہن میں نہیں آیا۔‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر350 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ ناراض ہوگئے اور ہمیں بُرا بھلا کہنے لگے ’’تم بے وفا دوست ہو۔ بردار یوسف ہو۔ کچھ شرم کرو۔‘‘
ہم نے انہیں بتایا ’’بَھائی۔ دوکشتیوں میں بیک وقت سوار ہونے والے عموماً ساحلِ مراد تک نہیں پہنچتے۔ تم دونوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرلو۔ اداکار بن جاؤ یا پھر صحافی بن کر اپنی شناخت کراؤ۔ ویسے ہمارا ذاتی مشورہ یہ ہے کہ تم صحافی بہت اچھّے بن سکتے ہو۔‘‘
وہ پھر ہتھّے سے اکھڑ گئے ’’کیا مطلب ہے‘ کیا میں اچھّا اداکار نہیں ہوں؟ مقابلہ کرکے دیکھ لو۔ کون سا ایکٹر مجھ سے زیادہ اچھّا ہے؟ میں کسی سے کم ہوں کیا؟ تم دوست نہیں بغلی گھونسے ہو۔ میری قدر نہیں ہے تمہیں۔ ایک وقت آئے گا جب دنیا بطور اداکار میرے گن گائے گی۔‘‘
’’اور پھر تمہاری آنکھ کھل جائے گی‘‘ ہم نے فقرہ مکّمل کیا۔
وہ بے اختیار ہنس پڑے۔ پھر ہمیں گلے سے لگایا اور کہا ’’آفاقی‘ تم بہت گھٹیا قسم کے انسان ہو۔ مگر ایک خوبی تو ہے، تم منافق نہیں ہو۔ جاؤ اس ایک خوبی کی خاطر تمہیں معاف کرتا ہوں۔‘‘
یہ 1967-68ء کا ذکر ہے۔ اس کے بعد جعفری نے زیادہ توجّہ صحافت کو دی۔ خصوصاً فلمی صحافت میں انہوں نے بہت نام پیدا کیا۔ جب فلمی مصروفیات کم ہوگئیں تو وہ لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ کچھ عرصے تو اداکاری کا کیڑا ان کے ذہن میں کلبلاتا رہا مگر پھر انہیں صبر آگیا تھا اور وہ کل وقتی صحافی بن کر رہ گئے تھے۔
وہ ایک اچھّے فوٹوگرافر بھی تھے اس لیے کیمرہ بھی گلے میں لٹکائے پھرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں بہت آسانی ہوگئی تھی۔ لاہور آتے تو ہم سے ضرور ملاقات کرتے۔ کبھی گھر آجاتے۔ کھانا کھاتے‘ چائے پیتے اور تصویریں بناتے۔ ہماری بیوی اور بچّیوں سے وعدہ کرتے تھے کہ ان تصویروں کی ایک ایک بہت عمدہ کاپی انلارج کراکے بھیجوں گا مگر یہ وعدہ انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا۔ ڈھٹائی ملاحظہ ہو کہ اگلی بار پھر آن دھمکتے تھے۔ شکوہ شکایت کے جواب میں فرماتے۔ ’’ارے بھابی۔ پرانی باتیں چھوڑئیے۔ اس بار ایسی تصویریں بنائی ہیں کہ آپ خود کو نہیں پہچانیں گی اور یہ نادیہ تو آپ کو کسی اور کی بچّی نظر آئے گی۔ بس کراچی جاتے ہی آپ کو تصویریں بھیج دوں گا۔‘‘
مگر ان کا یہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوا۔
جعفری ہنس مُکھ آدمی تھے۔ دلچسپ باتیں کرتے تھے مگر دل بہت کمزور تھا یا پھر انہیں حسب خواہش رونے اور آنسو بہانے کا گُر آتا تھا۔ ذرا سے بھی جذباتی ہوتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے اور آواز بھرا جاتی تھی۔ ہمارے دوست رشید جاوید کہا کرتے تھے۔ ’’بیٹا جعفری۔ رونے کے معاملے میں تو تم دلیپ کمار ہو۔ کاش دوسرے معاملات میں بھی کچھ سیکھ لیتے۔‘‘
جعفری ہنس کر ٹال دیتے تھے۔
ان کی ذاتی اور گھریلو زندگی میں خاصی تلخیاں پیدا ہوتی رہیں۔ والدہ ان کی زندگی کا محور تھیں۔ کافی دیر سے شادی کی مگر گھریلو سکون میّسر نہ آسکا۔ دوسری شادی کے بعد انہیں گھر کا سکون اور خاندان کی یگانگت کا احساس ہوا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ وہ مختلف امراض کا شکار ہو گئے تھے مگر معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے شب و روز کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ جس معیار کے صحافی تھے‘ افسوس کہ مالی لحاظ سے ان کی ایسی قدر نہیں ہوئی۔ بڑے بڑے لوگوں تک رسائی رکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی کا احسان لینا گوارا نہ کیا اور نہ ہی دولت کمانے کا کوئی نامناسب طریقہ اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ بیوی بچّوں کے لیے کچھ نہ چھوڑ سکے۔ ان کے بعد ان کی بیوہ نے بڑی ہمت کا ثبوت دیا اور بچّوں کی پرورش کی ذمّے داری سنبھال لی۔ دیانت دار اور خوددار صحافیوں کو ہم نے اس معاشرے میں ہمیشہ پریشان حال ہی دیکھا۔ اسد جعفری اس کی ایک نمایاں مثال تھے۔
لوگ اکثر اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کراچی جو قیام پاکستان کے فوراً بعد حکومت کا مرکز بن گیا تھا اور صنعت و تجارت کے اعتبار سے بھی پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم شہر سمجھا جاتا تھا جہاں سرمائے کی کوئی کمی نہ تھی‘ خوبصورت ساحل سمندر کے علاوہ فلک بوس عمارتیں اور خوبصورت کشادہ سڑکیں اور شاپنگ سینٹر تھے۔ اس کے باوجود یہ شہر پاکستان کی فلمی صنعت کا مرکز کیوں نہ بنا‘ یہ اعزاز لاہور کے حصّے میں کیوں آیا؟
اس کا ایک جواب تو بہت آسان ہے۔ لاہور قیام پاکستان سے پہلے بھی برصغیر میں فلمی صنعت کا ایک اہم مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت صحیح معنوں میں بمبئی اور کلکتہ کے بعد لاہور ہی فلم سازی کا سب سے بڑا اور قابل ذکر گڑھ تھا۔ فلمیں تو مدراس میں بھی بنائی جاتی تھیں اور وہاں کی فلمی صنعت مالی اعتبار سے مضبوط بھی تھی اس لئے کہ وہاں ڈھنگ سے کام کیا جاتا تھا۔ چند بڑے فلم ساز ادارے تھے جن کے زیراہتمام فلمیں بنتی تھیں۔ ان اداروں کے اپنے فلم سٹوڈیوز‘ تقسیم کار ادارے اور سینما گھر بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ فلموں کا تمام منافع یہ سمیٹ لیا کرتے تھے اس لئے ان کی مالی حالت بہت مستحکم تھی لیکن مدراس میں بیشتر علاقائی زبان کی فلمیں بنائی جاتی تھیں ۔اس لئے وہ ملک گیر شہرت اور کامیابی نہیں حاصل کر سکیں۔ اس کے مقابلے میں بمبئی اور کلکتہ کے بڑے فلم ساز ادارے رفتہ رفتہ کمزور اور بے بس ہوتے جا رہے تھے جس کی وجہ سے ’’آزاد فلم سازوں‘‘ کی کھیپ کی کھیپ میدان میں آ گئی تھی۔ یہ لوگ چند کے سوا اکثر فلم سٹوڈیوز کی سہولت سے محروم تھے۔ ان کا اپنا تقسیم کار ادارہ بھی نہ ہوتا تھا۔ سینما گھروں کے مالک بھی نہ تھے۔ ڈسٹری بیوشن اور ایگزی بیشن کیلئے یہ دوسروں پر انحصار کرتے تھے۔ سرمائے کیلئے بھی یہ باہر کے سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر تھے جو بھاری سود پر انہیں سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیاب فلمیں تخلیق کرنے کے باوجود ان کے حصّے میں فلم کے منافع کا صرف ایک محدود حصّہ ہی آتا تھا چنانچہ یہ مالی اعتبار سے مستحکم نہ تھے۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر352 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں