حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ..۔ چھٹی قسط
میں نے ہنستی ہوئی صبحیں دیکھی تھیں، رات کے آنچل پر ستاروں کی جھلملاہٹ دیکھی تھی، مسکراتے ہوئے پھول دیکھے تھے مگر ان سب کا تبسم ہر ایک کے لئے ہوتا ہے۔ محمدﷺ کی مسکراہٹ کا ایسا دل میں کھب جانے والا انداز تھا کہ بندہ ہزاروں کے ہجوم میں تنہا ہو جائے۔ اُس میں کسی غیر کی شرکت کا شائبہ بھی نہیں محسوس ہوتا تھا۔ وہ مسکرا کر میری طرف دیکھتے تو لگتا جیسے بادلوں سے چاند نکل آیا ہو، جیسے چلچلاتی دھوپ میں سایہ میسر آ گیا ہو، جیسے تپتی دوپہر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا گزر جائے، جیسے بے آب و گیاہ صحرا میں تھوہڑ کی کسی شاخ پر کوئی شاداب پھول نظر آ جائے!
ایک راندۂ خلق سیہ فام غلام پر نظر اٹھانے کی بھی بھلا کوئی اہمیت ہے لیکن جب وہ میری طرف دیکھتے تو اس توجہ سے کہ جیسے اُن کے نزدیک یہ دنیا کا اہم ترین کام تھا۔ یہ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ چھوٹے بڑے کام کو انتہائی انہماک اور مکمل یکسوئی سے انجام دینا اُن کی عادت تھی۔
اُن کی مسکراہٹ ایک سچے انسان کی مسکراہٹ تھی اور میرے لئے یہی احساس ان کی ہر بات کی صحت کی ضمانت تھا۔ میرا دل کہتا تھا کہ اگر محمدﷺ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو یقیناً ایک ہی ہو گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں تو واقعی وہ اللہ کے رسول ہوں گے۔ اگر محمدﷺ کہتے ہیں کہ وہ فرشتے سے ہم کلام ہوئے ہیں تو ضرور ہوئے ہوں گے۔ مگر یہ ساری سوچ میرے لاشعور میں تھی۔ شعوری طور پر مجھے اس کا ادراک اُس وقت ہوا جب اُمیہ رات کو غلام خانے میں آیا اور اُس نے مجھ سے براہِ راست سوال کیا:
’’سچ سچ بتا تیرا معبود کون ہے؟‘‘
موؤن رسولﷺ کی ایمان افروز داستان حیات ..۔ پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’محمدﷺ کا معبود میرا معبود ہے!‘‘
میرا جواب سنتے ہی اس کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی مگر شاید وہ اس جواب کے لئے تیار تھا۔ کہنے لگا:
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تُو ہمارے خداؤں سے انکار کرتا ہے‘‘؟
’’محمدﷺ الامین ہیں۔ انہیں ایک فرشتے نے بتایا ہے کہ اللہ ایک ہے‘‘۔
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ کل میں عمار کے جن الفاظ پر معترض تھا، وہی الفاظ آج میری اپنی زبان سے نکل رہے ہیں۔ کل میں عمار کیو جہ سے خائف تھا مگر آج میں اپنے لفظوں پر بھی خائف نہیں تھا۔ یہ نہیں تھا کہ میں اس دیدہ دلیری کی سزا سے بے خبر تھا مگر لگتا تھا جیسے میرے اندر طاقت کا ایک سیلاب اُمڈ آیاہے جس کے سامنے اُمیہ اور اُس جیسے کئی، خس و خاشاک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔
اُمیہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکیاں دیتا ہواغلام خانے سے باہر چلا گیا۔ مجھے اُس وقت وہ ایک بے بس بچہ لگ رہا تھا جس کا کوئی کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔
اس واقعے کے بعد اب روز کا یہ معمول ہو گیا کہ مجھے دوپہر کو غلام خانے سے باہر نکالا جاتا اور دھوپ میں جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر میرے سینے پر تپتی ہوئی بھاری بھاری چٹانیں رکھ دی جاتیں کہ میں ہل بھی نہ سکوں۔ اسی حالت میں اُمیہ مجھ پر کوڑے برساتا اور مجھے مجبور کرتا کہ میں اُس کے خداؤں کو تسلیم کروں۔ میری کمر پر پہلے چھالے پڑے جو ایک دو روز میں زخم بن گئے جن سے خون رستا رہتا تھا۔ مگر اُمیہ نے میرے معمول میں فرق نہ آنے دیا بلکہ ہر روز اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ہر روز میرے لئے گزشتہ دن سے زیادہ گرم ریت تلاش کیجاتی، پہلے سے زیادہ وزنی چٹانیں ڈھونڈی جاتیں اور پہلے سے زیادہ کوڑوں کی ضربیں۔
ہر روز میں مرنے کے قریب ہو جاتا مگر اُمیہ کے سوالوں کا جواب میں ’احدٌ احدٌ ‘ کے سوا کچھ نہ کہتا۔ ایک دن اُس نے تنگ آ کر مجھے ایک رات اور ایک دن بھوکا رکھا اور پھر مجھے گرم ریت پر لٹا کر مارنا شروع کر دیا مگر میں چٹانوں کے نیچے دبا دبا بھی اُس کے ہر سوال کے جواب میں ’احدٌ، احدٌ ‘ ہی دُہراتا رہا۔
بنو جُمح کے سارے محلے کو علم تھا کہ بلال کی اصلاح کی جا رہی ہے۔ بعد میں ایک دفعہ عمرو بن العاصؓ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی مجھے سزائیں پاتے دیکھا تھا۔ بچہ بچہ میرے نام سے واقف ہو گیا تھا۔ ابوبکرؓ بھی جو بنوجُمح ہی کے محلے میں رہتے تھے، مجھے روز دیکھتے تھے اور نظریں نیچی کر کے چلے جاتے تھے۔ جب دھوپ اور کوڑوں کی سزا کارگر نہ ہوئی تو اُمیہ نے میرے گلے میں رسی باندھ کر مجھے بنوجُمح کے لڑکوں کے حوالے کر دیا۔ بچے سارا دن چیختے چلاتے، قہقہے لگاتے مجھے مکے کی اونچی نیچی پتھریلی سڑکوں پر کھینچے پھرتے۔ اُن کے قہقہوں میں میری چیخ و پکار کسی کو سنائی نہ دیتی۔
بچوں کو ایک دلچسپ مشغلہ ہاتھ آ گیا تھا اور وہ اس سے پورا پورا لطف اٹھانا چاہتے تھے۔ وہ رسی سے میری گردن کو جھٹکا دیتے تو میں گر پڑتا۔ اور پھر وہ سب مل کر مجھے گھسیٹنے لگتے۔ میں اٹھنے کی کوشش کرتا تو ٹھوکریں مارتے۔ کبھی اٹھ کر کھڑا ہو جاتا تو پھر رسی کے جھٹکے سے مجھے گرا دیتے۔ میں منہ کے بل گرتا تو پھر مجھے گھسیٹنا شروع کر دیتے۔ کبھی رسی اس زور سے کھینچتے کہ میرا دم گھٹنے لگتا۔ نوکیلے کنکروں، سنگریزوں اور پتھروں کی رگڑ سے روز میرے بدن پر نئے زخم بنتے۔ پہلے زخم بھرنے بھی نہ پاتے کہ پھر کھل جاتے۔ میرا سارا جسم لہولہان ہو جاتا۔ دوپہر کے بعد جب سارا مکہ تپ اُٹھتا تو وہ میرے کپڑے اتروا کر مجھے لوہے کی زرہ پہنا دیتے اور دھوپ میں ڈال دیتے۔
ایک دن انہوں نے مجھے دہکتے کوئلوں پر لٹا کر میرے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا۔ آج بھی میرے جسم پر اُن کوئلوں کے داغ ہیں۔ ایک دن مدینے میں مَیں رسولِ کریمﷺ کے گھر کا سودا سلف لے کر آ رہا تھا کہ میری چادر شانوں سے سرک گئی۔ عبیدہ بن حارثؓ میرے پیچھے آ رہے تھے۔ انہوں نے میرے جسم کے داغ دیکھے تو اُن پر رقت طاری ہو گئی۔
سورج ڈھلتے ہی میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر مجھے دوبارہ غلام خانے کے فرش پر پھینک دیا جاتا۔ میرا سارا جسم زخمی ہو گیا تھا بلکہ پورا بدن ایک زخم بن گیا تھا جس سے ہر وقت خون بہتا رہتا تھا۔ بنو جُمح میں میرا تماشا ایک دفعہ حسان بن ثابتؓ نے بھی دیکھا تھا۔ انہوں نے مجھے خود بتایا کہ وہ مکے میں عمرہ کرنے گئے ہوئے تھے مگر میں نے انہیں نہیں دیکھا۔ تماشا کب تماشائی کو دیکھتا ہے۔ لیکن ایک ضعیف شخص مجھے یاد ہے اور میں اُسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ ورقہ بن نوفل۔ میں روزمرہ کی طرح گرم چٹانوں تلے دبا اُمیہ کے کوڑے کھا رہا تھا اور وہ مجھے ہر کوڑے پر لات اور عزّیٰ کی عبادت پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اُدھر سے ورقہ کا گزر ہوا۔ وہ میرے منہ سے ’احدٌ، احدٌ ‘ کی آواز سن کر رُک گئے اور انہوں نے بآوازِ بلند کہا ’’بلال وہ واقعی ایک ہے‘‘ پھر انہوں نے اُمیہ سے مخاطب ہو کر کہا:
’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تونے اسے مار ڈالا تو میں اس کی قبر پر درگاہ تعمیر کروں گا۔‘‘
مگر اُمیہ باز نہ آیا۔ ہر روز دوپہر کو جب بچے مجھے مار مار کر نڈھال کر دیتے اور ریت پر لٹا کر میرے اوپر چٹانیں رکھ دیتے تو وہ بھی کوڑا گھماتا وہاں پہنچ جاتا اور ہر کوڑے کی ضرب کے بعد مجھ سے پوچھتا کہ میں محمدﷺ کے اللہ سے منحرف ہوا ہوں یا نہیں؟ مگر میرا جواب ’احدٌ، احدٌ ‘ کے سوا کچھ اور نہ ہوتا۔ شاید میں کچھ اور کہنا ہی بھول گیا تھا۔ میرا روزمرہ کا رقصِ بسمل بھی جب اُس کے دل کی مراد بر نہ لا سکا تو ایک دن اُس نے ایک قطعی فیصلہ کر لیا۔ آج کی رات بلال کی آخری رات ہو گی۔ کل کی صبح اُس کی آخری صبح شدید ترین اذیتیں اور پھر موت!(جاری ہے )
موؤن رسولﷺ کی ایمان افروز داستان حیات ..۔ ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں