چاچا لائسنس ہے نا
سفر جب زیادہ آسان نہیں تھا، تو انہی دِنوں کندیاں سے میانوالی تک ’’کڑاک خیل‘‘ کے نام سے بس سروس کا آغاز ہوا۔ اس بس سروس سے پہلے ہم کندیاں سے میانوالی جانے کے لئے ریلوے کے ذریعے سفر کرتے تھے،ریلوے کا نظام اُن دِنوں اچھا تھا یہ محکمہ ابھی شیخ رشید جیسے باکمال لوگوں کے ہاتھوں سے محفوظ تھا، گاڑیوں کی بہار تھی، ہم لوگوں کے پاس ’’ دِل پشوری‘‘ کرنے کے لئے ایک ہی جگہ تھی، ریلوے سٹیشن جہاں پشاور، لاہور، ملتان، کراچی اور راولپنڈی کے لئے ریلوے کی گاڑیاں اپنے اپنے وقت پر چلا کرتی تھیں، کندیاں چونکہ جنگشن تھا تو یہاں پر کوئی بھی ٹرین آدھ گھنٹے کے لئے ضرور رُکتی تھی۔۔۔ اور یوں ریلوے اسٹیشن پر ایک ’’میلہ‘‘ سا لگ جاتا تھا۔۔۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اگر آپ کو کوئی ’’ایمرجنسی‘‘ ہے تو پھر کندیاں سے میانوالی جانے کے لئے کوئی متبادل نظام نہیں تھا۔۔۔ ’’کڑاک خیل‘‘ بس سروس شروع ہوئی تو ہر ایک گھنٹے بعد کندیاں سے میانوالی جانے کا بندوبست ہو گیا۔۔۔’’کڑاک خیل‘‘ بس سروس کی بسیں بظاہر بہت خوبصورت تھیں، مگر ان کے ’’انجن‘‘ اپنی عمر پوری کر چکے تھے، سو یہ بسیں چلتی کم اور رینگتی زیادہ تھیں۔
’’کڑاک خیل‘‘ بس سروس کے پاس صرف ایک ہی ’’لائسنس یافتہ‘‘ ڈرایور تھا باقی سب بغیر لائسنس کے تھے، سو اس روٹ پر ’’چاچا لائسنس‘‘ کے نام سے ایک ڈرائیور کافی مشہور ہوا۔۔۔ چاچا لائسنس سابق فوجی تھا۔۔۔ ریٹائر ہونے کے بعد کڑاک خیل بس سروس سے منسلک ہو گیا۔’’چا چا‘‘ کی عمر 80 سال کے قریب ہو گی۔۔۔ ہاتھوں کی حد تک تو بہت تگڑے تھے اور ہاتھوں کے استعمال میں بھی بہت تیز تھے، سو روزانہ کسی نہ کسی مسافر سے یا تو ہاتھ کھا لیتے تھے یا پھر ’’جڑ‘‘ دیتے تھے۔
البتہ پاؤں کچھ زیادہ تیز نہیں تھے۔ اکثر و بیشتر بریک لگاتے ہوئے کانپ جایا کرتے تھے، سو بس کسی درخت سے بچتی تو کھمبے سے اُلجھ پڑتی اور اگر کھمبے سے بچنے میں کامیاب ہو جاتی تو بڑی نہر کے قریب لگے پانی کے ’’نلکے‘‘ سے تو بہرحال بغلگیر ہو جایا کرتی تھی، ’’چاچا لائسنس‘‘ جونہی اپنی نشست پر بیٹھتا، بس میں موجود مسافر اپنی اپنی جیبوں میں سے تسبیحاں نکال کر کلمے کا ورد شروع کر دیتے اور پھر میانوالی تک کلمے کا ورد جاری رہتا۔۔۔ چا چا لائسنس کو چونکہ علم تھا کہ یہ لوگ اللہ کی محبت میں نہیں میری ڈرائیونگ کے خوف سے کلمے کا ورد کر رہے ہیں، سو وہ با آواز بلند کہا کرتا تھا۔۔۔ مجھے دُعائیں دو کہ آپ لوگوں کو کلمے کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے۔
چاچا لائسنس نے جب مسلسل چار پانچ کے قریب ’’حادثے‘‘ دکھائے تو شہر کے لوگوں نے ’’کڑاک خیل‘‘ بس سروس کے مالکان سے مطالبہ کیا کہ اس روٹ پر کوئی اور ڈرائیور لگایا جائے، جب یہ مطالبہ زور پکڑ گیا۔۔۔ تو بس کے مالکان نے کہا۔۔۔ کہ ہمارے پاس ایک ہی ’’لائسنس یافتہ‘‘ ڈرائیور ہے۔ سفر کرنا ہے تو اسی کے ساتھ کرو۔
دراصل ان دِنوں ٹریفک پولیس کا بہت رعب ہوا کرتا تھا اور گاڑی کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس کے حوالے سے بہت سختی ہوا کرتی تھی۔ سو پولیس کے ساتھ ’’لین دین‘‘ نہ کرنے والی بس سروس کو بہت تنگ کیا جاتا تھا۔چاچا کے پاس چونکہ لائسنس تھا،تو پولیس والے زیادہ تنگ نہیں کرتے تھے، اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ اس روٹ پر کسی بھی ڈرائیور سے ’’ایکسیڈنٹ‘‘ ہو جاتا تو چالان ہمیشہ چاچا لائسنس کا ہی ہوا کرتا تھا۔۔۔ اِس لئے ہر جگہ چاچا سائسنس، چاچا لائسنس کے نام کے چرچے عروج پر تھے۔
یہ چاچا لائسنس مجھے موجودہ حکومت کی وجہ سے یاد آیا ہے۔ دیکھا جا رہا ہے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ ماہ سے موجودہ حکومت کی بس ’’کڑاک خیل‘‘ سروس بنی ہوئی ہے۔ کبھی پاکپتن میں ’’معززین‘‘ کے ساتھ ٹکراتی ہے تو کبھی ’’ساہیوال‘‘ میں مظلومین پر چڑھ دوڑتی ہے۔
مختلف حوالوں سے اگر دیکھا جائے، حکومت نے ہر موقع پر ٹکرانے کی پالیسی بنا رکھی ہے۔ نواز شریف گزشتہ ایک دو سال سے زیر تفتیش ہیں،کبھی ضمانت پر باہر آتے ہیں تو کبھی دوبارہ جیل چلے جاتے ہیں،۔ شہباز شریف بھی ’’آدھے جیل‘‘ میں اور آدھے باہر ہیں۔۔۔ادھر سندھ میں بھی ’’گڑ بڑ‘‘ ہے، وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت گرانے کے لئے کمر کس چکی ہے۔ادھر آصف علی زرداری کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں، بلکہ وفاقی وزراء بتاتے ہیں کہ وہ عنقریب جیل میں ہوں گے۔
الغرض حکومت میں ہوتے ہوئے بھی حکومت اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں اور یقیناًتعلیمی اداروں کی اہمیت سے بھی آگاہ ہوں گے، مگر ہم نے دیکھا کہ ’’نمل یونیورسٹی‘‘ میں انہوں نے جو خطاب کیا۔۔۔ وہ کسی بھی حوالے سے لائق تحسین ہر گز نہیں ہے۔وزیراعظم نے ’’نمل یونیورسٹی‘‘ کے دورے پر اعلان کیا تھا کہ یہ ایک نجی دورہ ہے،یعنی وہ ایک ’’پرنسپل‘‘ کے طور پر نمل یونیورسٹی جا رہے ہیں،جہاں وہ طالب علموں کے ساتھ کوئی علمی گفتگو کریں گے،مگر وہاں بھی انہوں نے نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے بارے میں گفتگو کی۔۔۔ اور یونیورسٹی کے طاب علموں کو ہی کیا پوری قوم کو مایوس کیا۔
بیان کردہ واقعات کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ رہا ہے اور بدقسمتی سے ہر واقعے کی ذمہ داری ’’حکومتی بس‘‘ کے حصے میں آ رہی ہے۔
مزید بدقسمتی یہ ہے کہ چونکہ حکومتی بس کے ’’لائسنس یافتہ‘‘ ڈرائیور عمران خان ہیں تو ہر جگہ نقصان عمران خان کا ہو رہا ہے اور نام بھی انہی کا بدنام ہو رہا ہے،جو کہ آنے والے دِنوں میں مزید بدنام ہو سکتا ہے۔سو ان حالات میں عمران خان کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے حکومتی بس کی حالت درست کریں وہ ایسے ’’وزیروں اور مشیروں‘‘ سے جان چھڑائیں جو حکومتی بس کو ’’درخت‘‘، ’’کھمبے‘‘ اور ’’نلکے‘‘ کے ساتھ ٹکراتے نظر آتے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ ٹکراؤ میں کمی نہ آئے۔
حکومت کرنے کا یہ ’’گُر‘‘ انہیں عمران خان نے سکھایا ہے یا یہ لوگ خود سیکھے سکھائے ہوئے ہیں،مجھے معلوم نہیں ہے،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت سے جو توقعات لوگوں نے وابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہو رہیں، لوگ مایوس ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے، سڑک پر نکلتے ہوئے لوگ ڈرنے لگے ہیں۔
کوئی بھی ادارہ عوامی بھلائی کے کسی بھی کام میں معاون نظر نہیں آتا،مگر لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دی جا رہی ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں،عمران خان، یعنی ’’چاچا لائسنس‘‘ ہے نا؟مگر میرے خیال میں ’’چاچا لائسنس‘‘ کا نعرہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، لوگوں کو اپنے مسائل کا حل چاہئے اور حکومتی بس کو عوامی خدمت کے روٹ پر چلتے ہوئے دیکھنے کی خواہش ہے،مگر مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ’’کڑاک خیل‘‘ بس سروس کی طرح زیادہ دیر تک چلنے کی نہیں ہے۔
’’کڑاک خیل‘‘ ’’بس سروس‘‘ بھی زیادہ دیر نہیں چل سکی تھی، مجھے یاد ہے کہ بس مالکان کے اور چاچا لائسنس کے رویئے سے تنگ آ کر کندیاں شہر کے لوگوں نے ہڑتال کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ مقامی لوگوں کو اجازت دی جائے کہ وہ کندیاں سے میانوالی تک ’’لوکل ٹرانسپورٹ‘‘ چلا سکتے ہیں۔
اس مطالبے پر اجازت دے دی گئی اور پھر ’’لوکل ٹرانسپورٹ‘‘ایسی چلی کہ اب کڑاک خیل‘‘ بس کا ذکر ایک عرصے بعد اس کالم میں کیا جا ر ہا ہے۔ سو عمران خان کو چاہئے کہ وہ ’’حکومتی بس سروس‘‘ کو درست کریں اور اپوزیشن کے ساتھ ٹکراؤ کی بجائے عوامی مفاد کے کاموں کی طرف دھیان دیں۔