وحید رضا بھٹی: ایک ”جماندرو“ مترجم
کسی بھی زبان میں کہے گئے اشعار کو جب کسی دوسری زبان میں نظم کرنے کا چیلنج درپیش ہو تو یہ مترجم کے لئے ایک نہائت مشکل چیلنج ہوتا ہے۔ اردو ایک ہمہ رنگ اور ہمہ جہت زبان ہے، اس میں کئی شعرا نے دوسری زبانوں کے اشعار نظم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اسے مجموعی اعتبار سے کامیاب کوشش نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کوشش کبھی اصل (اورجنل) سے باہر نکل گئی ہے اور کبھی اصل کو صرف چھوتی ہوئی معلوم ہوئی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں منظوم ترجمہ اگرچہ بنیادی خیال کو احاطہ ضرور کرتا ہے لیکن قرات کرنے والے کو ادھورے پن کا احساس بھی دلاتا ہے۔ وجہ یہ ہے زبانوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ کسی زبان کا کوئی لفظ، کسی دوسری زبان کے مساوی لفظ کا ہو بہو ترجمہ نہیں ہو سکتا۔مزید برآں نازک خیالی ایک بڑی شعری صفت قرار دی جاتی ہے لیکن ایک زبان کی تصوراتی نزاکت دوسری زبان کی نازک خیالی سے یا تو آگے بڑھ جاتی ہے یا پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کسی نظم یا غزل یا کسی بھی دوسری صنفِ سخن میں دونوں زبانوں کے مزاج کی یکساں عکاسی ہو سکے۔
مثالیں بے شمار دی جا سکتی ہیں لیکن میں صرف ایک دو شعروں کے منظوم تراجم سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ (میں نے ان مثالوں کے لئے پنجابی زبان کا انتخاب کیا ہے)…… غالب کا ایک شعر ہے:
وفا کیسی،کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل! تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
اس غزل کو رشیدہ سلیم سیمیں نے ترجمہ کیا ہے۔ وہ جب متذکرہ بالا شعر پر پہنچی ہیں تو اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
کہیا عشق تے کیہی وفا لوکو، جد لکھیاں نصیب وچ ٹکراں نے
تو فیر پتھر دے کالجے والیا اوئے کاہنوں تیری دہلیزدا مان ہووے
اس پنجابی ترجمے میں دوسرا مصرع اصل اردو شعر کے خیال سے آگے نکل گیا ہے۔ غالب نے صرف ”سنگِ آستاں“ کی بات کی ہے لیکن رشیدہ نے سنگِ آستاں کا غرور (دہلیز دا مان) کہہ کر اردو زبان کے خیال سے آگے ایک اضافی جست (Leap) بھرلی ہے۔
اسی غزل کا غالب کا مطلع ہے:
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنجِِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
اس شعر کا رشیدہ سلیم کا ترجمہ یہ ہے:
ایویں دے کے کسے نوں دل کوئی، کاہنوں رو رو کے ہلکان ہووے
جدوں دل ای ہووے نہ وچ سینے، کاہنوں منہ دے وچ زبان ہووے
اس شعر میں جہاں غالب نے ”نواسنجِ فغاں“ باندھ کر فغاں کے تسلسل کی طرف اشارہ کیا ہے اور عاشق کے فریاد و فغاں کے تواتر کا ذکر کیا ہے وہاں رشیدہ نے اس خیال کا رو رو کر مر جانے کا ترجمہ کرکے عاشق کے ہلکان ہونے کا رونا تو رویا ہے لیکن نواسنجیء فغاں کے تسلسل کا لطف غارت کر دیا ہے۔
اسی طرح دیوانِ حافظ کی پہلی غزل کا ایک شعر دیکھئے:
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں حائل
کجا دانند حالِ ما، سبک سارانِ ساحل ہا
اس کا ترجمہ کسی پنجابی شاعر نے یوں کیا ہے:
رات ہنیری تے گھمن گھیری تے شوہ پیا ٹھاٹھاں مارے
اوہ کیہ جانے سار اساڈی، جیڑے وسّن ندی کنارے
حافظ نے ساحل پر کھڑے لوگوں کو ’سبک سار‘ کہہ کر ان کی تضحیک کی ہے لیکن پنجابی ترجمے میں اس تضحیک کا کوئی ذکر نہیں اور صرف یہ کہا ہے کہ ندی کنارے بسنے والوں کو اندھیری شب میں ان لوگوں کی کیا خبر جو گرداب (گھمن گھیری) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ حافظ نے جس بیمِ موج (لہروں کا خوف) کا ذکر کیا ہے اسے بھی پنجابی ترجمے میں غائب کر دیا گیا ہے۔
غالب کا فارسی دیوان، اس کے اردو دیوان سے تین چار گنا زیادہ ضخیم ہے لیکن غالب کی شاعرانہ عظمت و شہرت کا دار و مدار فارسی دیوان پر نہیں، اردو دیوان پر ہے۔ غالب کی فارسی کلیات کی ردیف الف میں ایک عام سی غزل ہے جس کا مطلع ہے:
زمن گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جو ئے مباش و ستیز کار بیا
صوفی تبسم نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے:
میرے شوق دا نہیں اتبار تینوں آ جا ویکھ میرا انتظار آجا
ایویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کیہ سوچنا اے ستم گار آ جا
اسی غزل کا یہ شعر فارسی دان حلقوں میں بہت مشور ہے:
وداع و وصل جداگانہ لذتے دارد
ہزار برو، صد ہزار بار بیا
اس کا ترجمہ صوفی تبسم نے یوں کیا ہے:
بھاویں ہجر تے بھاویں وصال ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میریا سوہنا! جا ہزار واری، آ جاپیار یاتے لکھ وار آ جا
صوفی تبسم نے متذکرہ بالا دونوں اشعار کا جو پنجابی ترجمہ کیا ہے وہ غالب کے فارسی اشعار سے شاعرانہ تخئیل کی حدوں سے آگے نکل گیا ہے۔ بالخصوص ”ایویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں“ اور ”میریا سوہنیا! جا ہزار واری“ کے ٹکڑے فارسی ٹکڑوں کے مقابلے میں زیادہ برجستہ اور قرینِ فطرت ہیں۔ اور اگر غالب کی یہ غزل اور صوفی تبسم کا منظوم ترجمہ غلام علی نے نہ گایا ہوتا تو غالب کی یہ غزل بھی اس کے فارسی دیوان کی تمام غزلوں کی طرح صرف کتابوں میں ہی محفوظ رہتی، زبانِ زدِ خلائق نہ بنتی۔
میں نے اس کالم میں عمداً پنجابی تراجم کے حوالے دیئے ہیں تاکہ قارئین کو بتا سکوں کہ چونکہ زبانوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے اس لئے یہ اختلاف منظوم تراجم میں بھی موجود رہتا ہے۔ ایران کا معاشرتی کلچر اور اس کا شعری اور نثری ادبی سرمایہ، پنجاب کے کلچر اور پنجابی زبان کے سرمایہء شعر و شاعری سے مختلف ہے۔ اس لئے عشق و عاشقی کی کیفیات کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے دونوں زبانوں کے شعراء کا رنگِ تغرل مختلف ہوجاتا ہے۔ پنجاب اور فارس (ایران) کا سماجی کلچر اگرچہ تھوڑا سا مختلف ہے لیکن یہ اختلاف یورپی زبانوں کی منظومات میں اور بھی نمایاں اور مختلف ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک تو انگریزی لٹریچر میں معاملاتِ حسن و عشق کی ”تفصیلات“ وہ نہیں جو مشرقی زبانوں کے لٹریچر میں پائی جاتی ہیں اور دوسرے نہ صرف انگریزی بلکہ یورپ کی دوسری بڑی بڑی زبانوں (مثلاً فرانسیسی، اطالوی،جرمن، روسی اور پولش وغیرہ) میں تو غزلیات کا سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقبال نے جن مغربی زبانوں کے شعر ی ادب سے متاثر ہو کر اردو اور فارسی میں چند نظمیں کہیں تھیں وہ صرف منظومات تھیں غزلیات نہیں۔ انگریزی زبان کی غزل میں وارداتِ قلبی اور تغرل کی نزاکتیں کم کم پائی جاتی ہیں ……انگریزی زبان کا ذکر آیا ہے تو میرے ایک محترم دوست وحید رضا بھٹی کا ایک نامہ ء محبت بھی یاد آیا ہے جو انہوں نے گزشتہ ماہ مجھے بھیجا۔ اس کے ساتھ انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا ایک جنگی ترانہ بھی منسلک کیا۔ ان کامکتوبِ گرامی درج ذیل ہے:
…………………………
6جنوری لاہور 2020
برادرم کرنل غلام جیلانی خان صاحب
السلام علیکم!
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ پچھلے برس اکتوبر یا نومبر میں آپ نے ایک جنگی ترانے کا ذکر اپنے کالم ”شمشیر و سناں اول“ میں کیا تھا جسے ملکہ ء ترنم نورجہاں نے گایا تھا اور 1969ء میں اسے ریڈیو پاکستان پر سب سے زیادہ بجنے والا جنگی ترانہ قرار دیا گیا تھا۔ میری مراد: ”اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں“ سے ہے
میں جون 1965ء میں ہائر سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ(میٹرک) کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو چکا تھا کہ موسم گرما کی تعطیلات گزارنے کے بعد جب یکم ستمبر کو کالج کھلا تو چھ ستمبر کو پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی۔ اگلے برس میں نے مذکورہ بالا نغمے کو انگریزی میں ڈھالا اور یہ پاکستان ٹائمز، ڈان، مارننگ نیوز، ڈھاکا ابزرور وغیرہ تمام انگریزی روزناموں میں شائع ہوا۔ پھر ستمبر1970ء میں مشہور و معروف انگریزی ماہنامے ”پاکستان ریویو“ نے ”جنگ ستمبر نمبر“ شائع کیا تو جمیل الدین عالی صاحب کے اصل متن کے مساوی میرا یہ ترجمہ بھی اس میں شامل کیا۔ اب تقریباً تیس برس بعد اسے ڈھونڈ نکالا ہے اور جناب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
والسلام
وحید رضا بھٹی
…………………………
جمیل الدین عالی کا ترانہ
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
………………………………
سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جراتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
اے شجاعت کے زندہ نشانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
…………………………
بیویوں، ماؤں بہنوں کی نظریں
تم کو دیکھیں تو یوں جگمگائیں
جیسے خاموشیوں کی زباں سے
دے رہی ہوں وہ تم کو دعائیں
قوم کے اے جری پاسبانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
…………………………
تم پہ جو کچھ لکھا شاعروں نے
ان میں شامل ہے آواز میری
اُڑ کے پہنچو گے تم جس افق پر
ساتھ جائے گی آواز میری
چاند تاروں کے اے راز دانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
……………………
انگریزی ترجمہ
O, Valorous youths of mine land!
My Carols and songs for you.....
Sacrifice is thine faith
To courage, thou art courtsied;
A lofty bastion, thou art!
No one to cross; succeed.
Living symbols of chivalry, grand...
My Carols and songs for you
……………………
Of mothers, sisters and wives,
Eyes shine at thine sight:
As with their silent tongues;
Aye, praying for thine might,
Fearless guardian`s of soil and sand!
My Carols and songs for you
……………………
Poesy men wrote for you...
My voice imparts and sings,
To horizon, thou soared forth!
My voice there ay, rings.
O, players of the constellation band,
My Carols and songs for you
…………………………
انگریزی زبان کے لٹریچر میں کسی اردو نظم یا غزل کا منظوم ترجمہ خال خال ملتا ہے۔اور وحید رضا نے یہ ترجمہ اس دور میں کیا جب وہ کالج کے سال دوم کے طالب علم تھے۔ لیکن ہونہار بروا کے پات تو شروع ہی میں چکنے چکنے ہوتے ہیں۔ CSS کرنے کے بعد وہ وزارتِ تجارت میں پوسٹ کئے گئے اور وہیں سے 2010ء میں ریٹائر ہوئے۔ مجید شیخ کی ایک انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ ”قصے شہر لاہور کے“ کے نام سے کیا تھا جس پر ان کو ایک ادبی انعام بھی مل چکا ہے۔ میں خود جب فرسٹ ائر میں تھا تو ہفتہ روزہ السٹرئیڈ ویکلی آف انڈیا جو ان ایام میں ممبئی سے شائع ہوتا تھا اس میں چھپنے والی ایک نظم The Ocean کو اردو میں منظوم کرکے اس کے ایڈیٹر کو ارسال کی تھی، انہوں نے فوراً ہی نہ صرف اسے اپنے رسالے میں شائع کیا تھابلکہ ایک تعریفی خط بھی بھیجا تھا…… اس کے بعد آرمی جوائن کی تو درجن بھر عسکری موضوعات پر کلاسیکی کتب کے اردو ترجمے کئے جو عسکری اور سویلین حلقوں میں خاصے مقبول ہوئے۔ اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وحید رضا بھی میری طرح ایک ”جماندرو مترجم“ ہیں!