سینیٹ، قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی قرار دادیں منظور
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی،آئی این پی)سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی قراردادیں منظور کر لی گئیں،قراردادوں میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو سلام پیش کرتے ہوئے قابض بھارتی افواج کے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں قائد ایوان شبلی فراز نے کشمیری عوام سے یکجہتی کی قرارداد پیش کی۔قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ یہ ایوان کشمیریوں کی قربانیوں پر عالمی ضمیر کے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی تحقیقات کرائی جائیں۔قرارداد میں مطالبات کیے گئے کہ بھارت کالے قوانین واپس لے، کشمیر میں چھ ماہ سے جاری کرفیو ختم کیا جائے اور کشمیر پر او سی آئی کا خصوصی اجلاس فوری بلایا جائیجبکہ ایوان میں حکومت کی طرف سے منی بل 2020 پیش کرنے پر اپوزیشن اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے جس پر وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہاہے کہ کس پر اپوزیشن کے اراکین برہم ہوئے جس کے بعد سینیٹر مشاہداللہ خان نے وزیرپارلیمانی امور اعظم سواتی سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔اعظم سواتی نے بتایا کہ یہ آرڈیننس 28 دسمبر کو جاری ہوا آج بل کی شکل پیش کیا جارہا ہے،قائد ایوان شبلی فرازنے ڈپٹی چیئرمین سے درخواست کی کہ یہ منی بل کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کریں،منی بل کی کاپی متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی کمیٹی دس روز میں اپنی سفارشات مرتب کرکے قومی اسمبلی کو بھجوائے گی۔قبل ازیں سینیٹر فیصل جاوید نے صحافیوں کو کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے قائمہ کمیٹی اطلاعات نے رپورٹ سینیٹ میں پیش کی۔رپورٹ میں قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہ کرنے والے میڈیا اداروں کو غیر مشروط دو دوماہ کی تنخواہیں ادا کرنے کی ہدایت کی گئی،رپورٹ میں کہا گیا کہ میڈیا اداروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو لازمی طوپر تحریری کنٹریکٹ فراہم کریں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی سفارش جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے چیئرمین قائمہ کمیٹی کو صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ جلد حل کرانے کی ہدایت کردی۔دوسری جانب قومی اسمبلی نے بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔ یہ قرارداد چیئرمین کشمیر کمیٹی فخر امام نے پیش کی۔قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان کشمیریوں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے بھارتی مظالم کی سخت الفاظ میں مذمت اور 7 دہائیوں سے کشمیریوں کی قربانیوں پر عالمی ضمیر سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔قرارداد میں پانچ اگست کے بھارتی اقدامات، کشمیری قائدین شبیر شاہ، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، آسیہ اندرابی اور سید علی گیلانی سمیت دیگر حریت رہنماؤں کی گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔قومی اسمبلی سے منظور قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف عالمی تحقیقات کرائی جائیں، بھارت کالے قوانین واپس، کرفیو ختم کیا جائے، ملٹری ا?بزرورز گروپ مقبوضہ کشمیر میں تعینات کیا جائے اور او سی آئی کا خصوصی اجلاس فوری بلایا جائے۔علاوہ ازیں وفاقی وزراء شیریں مزاری، فواد چودھری، غلام سرورخان اور زرتاج گل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر کو بہت آگے لے کر گئے، لیکن ہمارے ادارے خصوصاً وزارت خارجہ نے پوری طرح وزیراعظم کو سپورٹ نہیں کیا، وزارت خارجہ کی صلاحیت محدود ہے، ایسٹ تیمور کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو مسئلہ کشمیر کیوں نہیں؟مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کا آبزرور مشن تعینات کیا جائے، اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی افواج کو نکالا جائے اور عالمی عدالت انصاف اپنی رائے دے کہ بھارت نے کیوں مسئلہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی،اقوام متحدہ یہ قرار دے چکی ہے کہ متنازعہ حصے کی حیثیت نہیں بدلی جاسکتی، بھارت پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے بیانات مت دے،اس کے جہازوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا ہم نے دن کی روشنی میں جواب دیا، جو چائے پلائی تھی ابھی تک گرمائش محسوس ہوتی ہو گی، امن کی خواہش کو کمزوری مت سمجھا جائے ورنہ بھگتنا پڑے گا، امہ او آئی سی کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کرے۔اپوزیشن ارکان انجینئرخرم دستگیر، عبد القادر پٹیل،اسعد محمود، ناز بلوچ، نصراللہ خان دریشک و دیگر نے کہا ہے کہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے، آج قیادت کا فقدان ہے، بھارت کو سفارتی سطح پر شکست دینا ہماری ترجیح ہونا چاہیے،عالمی مبصر مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیا جائے تا کہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دیکھایا جائے، کسی حکومت کو کشمیر کے موقف پر پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دیں گے، خارجہ پالیسی پر از سر نظرثانی پر نظرثانی کرنی ہو گی، او آئی سی کو متحرک کرنا ہو گا، اگر حکومت کوئی عملی قدم اٹھائے تو اپوزیشن حکومت کا ساتھ دیں گے، کشمیر ایک مسلمہ بین الاقوامی قضیہ ہے، عالمی قوانین کے تحت مسئلہ حل کیا جائے، حکومت نے مفلوج اور نا اہل پالیسی سے بہت نقصان کر دیا ہے، ابھی بھی وقت ہے خارجہ پالیسی درست کریں، پاکستان کی خراب معیشت اور جمہوریت کو دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا ہے،کشمیر کیلئے آخری دم تک لڑیں گے، ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر کر ایسے قوانین بنوائے گئے ہیں کہ اب ان کو ڈومور کہنے کی ضرورت نہیں، معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا، ٹرمپ افغانستان سے بھاگنے کے چکر میں آپ کو ہاں ہاں کر رہا ہے، ہمیں اپنے فیصلوں پر اور معاملات پر نظرثانی کرنی ہو گی، مودی دنیا کے تمام ہندو اؤں کا لیڈر نہیں ہے، وہ فاشسٹ لیڈر ہے، پاکستان کے تمام ہندو برادری کشمیریوں کے ساتھ ہے، اب بات تقریروں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے جبکہ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر قومی اسمبلی نے صف اول کا کردار ادا کیا اور گزشتہ دو سال میں بڑے اقدامات اٹھائے، کشمیر کا مقدمہ ہماری پارلیمانی سفارتکاری کا سب سے اہم نکتہ ہے جس سے ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
قراردادیں منظور