مسئلہ کشمیر کا حل.... جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا ضامن!

مسئلہ کشمیر کا حل.... جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا ضامن!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حکومت کا فرض تھاکہ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد قومی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر مشترکہ لائحہ عمل بناتی اور اس پر عملدرآمد کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتی۔ کشمیری اور پاکستانی قوم حکومت کی طرف سے فیصلہ کن اقدام کے اعلان کا انتظار کر رہی ہے،چاہئے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ سے واپسی پر وزیراعظم آزادی کشمیر کا واضح روڈ میپ دیتے، مگر ٹیپو سلطان کے راستہ پر چلنے کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم 27 ستمبر کی تقریر کے بعدسے چپ سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ کی تقریر کے الفاظ انہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ حکومت ایکشن پلان کا اعلان کرے اور قومی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر فیصلہ کیا جائے کہ مودی کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو ناکام بنانے اور کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
 کشمیر اس وقت چاروں طرف سے محاصرے اور دنیا کی بڑی جیل کا منظر پیش کر رہاہے۔ کشمیر کو جیل خانہ بنانے میں پاکستان کے حکمرانوں کا بھی ہاتھ ہے۔بھارت کو ایل او سی پر باڑ لگانے کی اجازت پرویز مشرف نے دی۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں قتل ہوتاہے تو پورا امریکہ اٹھ کھڑا ہوتاہے، مگر کشمیر میں ہرروز قتل عام کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسلام آباد سنگ مرمر کا قبرستان بن چکاہے یہاں بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں، مگر یہ انتہائی چھوٹے اور غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ آٹھ ماہ تک کشمیر کمیٹی کا کوئی چیئرمین نہیں تھا۔ پہلے فخر امام کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا اور جب انہوں نے کام شروع کیا تو ان کو بدل دیا گیا۔آج تک پاکستانی حکمرانوں کی ایک ہی پالیسی رہی ہے،یہ بڑے بڑے نعرے لگاتے ہیں اور پھر ہر بات اور وعدے کو بھول جاتے ہیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کے بعد واپس آ کر جنرل گریسی کی پالیسی پر چلتے ہوئے اعلان کیا کہ جو کشمیر کی طرف جائے گا وہ پاکستان کا غدار ہوگا۔ حکومت جو اچھل کود کر رہی ہے یہ کشمیر کی آزادی کے لئے نہیں،بلکہ قوم کو مطمئن کرنے کے لئے ہے۔ اس حکومت کے آنے کے بعد معیشت تباہ اور معاشی نظام درہم برہم ہوگیاہے جس سے آزادیئ کشمیر کی تحریک کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔ افغان قوم نے جرا ئت کا مظاہرہ کیا چالیس ممالک کی افواج نیٹو اور امریکی فوج کو شکست دی اور بالآخر امریکہ کوگھٹنے ٹیکنے اور شکست تسلیم کرنا پڑی، جبکہ ہماری حکومت مصلحتوں اور بزدلی کے اندھیروں میں گم ہے۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے بھارت سلامتی کونسل کا رکن بنا۔
 کشمیر کی آزادی کے لئے غیرت اور جرا ئت مند قیادت کی ضرورت ہے، مگر ان حکمرانوں کی صفوں میں کوئی محمود غزنوی، سلطان ٹیپو اور محمد بن قاسم نظر نہیں آرہا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر وزیراعظم پاکستان کے سامنے رو پڑے کہ ہم کب تک اپنے معصوم بچوں اور جوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ صدر آزاد کشمیر حکمرانوں کے رویے سے مایوس ہیں۔ اسلام آباد کے بنگلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرنے والوں کے دل میں کشمیریوں کا درد ہوتا تو چار سالہ معصوم بچے اور اس کے نانا کی تصویر ان کی غیرت اور ایمان کو جگانے کیلئے کافی تھی۔کشمیری پاکستان کی محبت اور آزادی کے لئے اپنی جانیں اور عصمتیں قربان کر رہے ہیں۔ ماؤں کے سامنے ان کے معصوم جگر گوشوں اور نوجوان بیٹوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے اور بھائیوں کے سامنے ان کی ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ معصوم بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے روتے اور بلکتے ہیں۔
مودی نے بابری مسجد کو رام مندر اور کشمیر کو بھارت کاحصہ بنانے کے دو وعدے پورے کردیے اور اب وہ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی باتیں کر رہاہے، جبکہ ہمارے حکمرانوں نے قوم سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ پورا نہیں کیا۔ چار نسلوں سے کشمیریوں کا استحصال ہورہاہے۔ ہمارے حکمران قدم بقدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کوئی اقدام کرنے کے بجائے تقریریں کر رہے ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر کشمیر میں اور ایل او سی پر بھارت نے جنگ برپا کررکھی ہے اور یہ جنگ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکمران دنیا کو بتانے کی بجائے بزدلوں کی طرح اسے چھپا رہے ہیں۔ جس قوم نے جہاد سے پہلو تہی کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و خوار کردیا۔ حکومت فیصلہ کن اقدام کا اعلان کرے، پوری قوم اس کی آواز پر لبیک کہے گی۔ وزیراعظم کوتو سچ بولنے کی توفیق نہیں، سچ یہ ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیاہے کہ یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اور کشمیر سے لاتعلقی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری رہے گی۔ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ کشمیر کے یک نکاتی ایجنڈے پر اوآئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے۔ خاموشی کو توڑا اور دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ جب تک آپ دشمن کو دوست سمجھتے رہیں گے، نقصان اٹھائیں گے۔ قرار دادیں کوئی راستہ نہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سینکڑوں قرار دادیں پاس کر چکی ہے جس پر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب قراردادوں سے بات بہت آگے بڑھ چکی ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرار دادیں فرار کی راہیں ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت نے بہت وقت ضائع کردیا اب اسے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا۔
(1) حکومت قومی سیاسی قیادت کی کانفرنس طلب کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فوری طور پر نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کرے اوراس پر عمل درآمد کا روڈ میپ دے۔حکومتی اور اپوزیشن ممبران پرمشتمل سفارتی وفود بیرون ممالک بھیجے جائیں۔آزاد کشمیر کی منتخب حکومت ان وفود کیلئے سہولت کار بنے۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے ایک خصوصی نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جائے اورپاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔
(2) اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا جائے اور کشمیر کی آزادی کی آواز کو پورے عالم اسلام کی آواز بنایا جائے۔
(3) اوآئی سی کے اجلاس کی طرف سے اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر پر جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا جائے۔ 
(4) بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد معاہدہ تاشقند، شملہ سمجھوتہ اور اعلانِ لاہور کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اس لئے پاکستان کے عوام حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان معاہدوں سے علیحدگی اختیار کی جائے۔
(5) بھارت کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کئے جائیں،بھارتی سفیر کوواپس بھیجا جائے اورپاکستان کی فضائی حدود کو بھارتی طیاروں کیلئے بند کیاجائے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -