مسئلہ کشمیر کا حل
کشمیریوں کےساتھ یکجہتی کےاظہارکےلیےپاکستان سمیت دنیا بھر میں یومِ یکجہتی کشمیر منایاجارہا ہے ،اس دن کو منانےکا آغاز 1990 میں ہوا تھا پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور مقبوضہ کشمیرپر بھارت کےناجائزقبضہ کے خلاف آواز بلند کی ہے اب پاکستان زیادہ سےزیادہ زوردار طریقہ سے کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے، پاکستان دنیا کو آگاہ کررہا ہے کہ بھارت سات دہائیوں سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہے لیکن بھارتی جبرو ستم کے باوجود کشمیری اپنے حقِ خودارادیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔
آج اگر مسئلہ کشمیت مزید اُجاگر ہوا ہے اور اسے عالمی پیمانے پر ایک بار پھرشنوائی حاصل ہوئی ہے تو یہ کشمیریوں کے جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت کی وجہ سے ہے، پاکستان کےلیے بڑا چیلنج ہے کہ اندرونی محاز پر پوری قوم کو مسئلہ کشمیر پر متحد، یکسو اور یک جان رکھا جائے اور سفارتی محاز پر بھارتی جھوٹ فریب ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی کےلیے فاشسٹ اقدامات کو بے نقاب کیا جائے، یہ پوری قومی قیادت اور پالیسی سازوں کی اجتماعی قومی ذمہ داری ہے، عالمی برادری اقوم متحدہ ،او آئی سی اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں مودی سرکار کی جارحانہ حکمت عملی جس کے نتیجے میں پورا جنوبی ایشیا جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے کو لگام دینے کےلیے اپنا کردار ادا کریں ۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کو یقینی بنایا جائے لیکن اسکے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو جائیداد قائداعظمؒ نے بھارت میں چھوڑی تھی، وہ ممبی شہرکی مالا بارہل پر ایک مکان کی صورت تھا، قائداعظم کی وفات کے بعد حکومت پاکستان اور محترمہ فاطمہ جناح کوشش کرتی رہیں کہ حکومتِ بھارت انکا مکان انہیں دیدے لیکن بھارتی حکومت مکان دینے پر راضی نہیں ہوئی، اسلیے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جو بھارتی حکومت جناب قائداعظم کا مکان ہمیں واپس دینے پر راضی نہیں ہوئی، وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے پر کیسے راضی ہوگی ؟ اس کا راستہ نکالنا ہوگا، تنازعہ کشمیر ، پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی عشروں سے حل ہوتا نظر نہیں آتا ، جناب نوابزادہ مرحوم لیاقت علی خاں صاحب نے کہا تھا کہ ہم کشمیر کےلیے اپنی جدوجہد ترک نہیں کریں گے ،خواہ اس میں 10 سے 15سال لگ جائیں ،اب تقریباً 73 برس ہونے کوآئے لیکن یہ تنازعہ حل نہیں ہوسکا۔
اس مسئلہ کی وجوہات و اسباب کا جائزہ لینے کےلیے ان غلطیوں کو پیش نظررکھنا ہوگا جو سرزد ہوئی ہیں، موجودہ حالات کی روشنی میں اسکی جانچ پرکھ کرنا ہوگی اور درست تخمینہ لگانا ہوگا کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پنڈت جواہرلال حکومت کے طاقتور وزیر ولبھ پٹیل نے مرحوم نوبزادہ لیاقت علی خان صاحب کو پیشکش کی تھی کہ کشمیر پاکستان کو اور حیدرآباد دکن بھارت کو دیدے لیکن یہ پیشکش مسترد کردی گئی ۔ لیاقت علی خاں اور جناب قائداعظم کا غالباً یہ خیال تھا کہ پاکستان کو دونوں علاقے مل سکتے ہیں، کشمیر اس لیے کہ وہاں مسلم اکثریت ہے اور حیدرآباد اس لیے کہ حکمران مسلمان ہے، کہا جاتا ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کے وزیراعلی شیخ عبداللہ سے 1947 میں ملاقات کےلیے کہا لیکن اسکو نظرانداز کردیا گیا، اسطرح اسکے بعد کے کئی برس فضول سیاسی بحثوں میں ضائع کردیئے گئے جس میں سفارتی کوششیں بھی شامل ہیں جن کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو یقین دہانی کرانے کی کوششیں کی گئیں کہ وہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کرائے ، اب تک ہمیں یقین آجانا چاہیے کہ کشمیر میں استصوابِ رائے کبھی نہ ہوگا ، ریاستِ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام استصوابِ رائے کا کوئی امکان نہیں۔
تقسیم کے تقریباً 73 برسوں کے بعد صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھ سے بھی زیادہ افراد زندگیوں سے محروم ہوچکے، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ہوچکی اور کی جارہی ہے اور اس تنازعہ کو حل کرنے کےلیے کوئی بامعنی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آتی البتہ خدا سے اُمید ضرور ہے۔پاکستان کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے کےلیے ہر فورم پر آواز بلند کررہا ہے اور کرتا رہےگا ،اس کے برعکس بھارت دعوی کرتا ہے کہ کشمیر کاعلاقہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ،مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کےلیے مختلف امکانات پر باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن مسئلہ کاحل کوئی بھی پیش نہیں کرتا۔ کشمیر کے واحد دانشمندانہ حل ایسا ہونا چاہیے جو دونوں ممالک بشمول کشمیری عوام اورنسلِ انسانی کی بقا کےلیے مناسب ہو ،پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کی سنجیدہ قیادت کو ملکر عالمی عدالتِ انصاف میں جاناچاہیے اور بھرپور انداز میں کشمیر کامقدمہ لڑنا چاہیے اور فیصلہ خدا پرچھوڑناچاہیے یا تیسری صورت کشمیر کے عوام کو مکمل آذادی سےہمکنار کردیاجائے تاکہ وہ اپنے معاملات خود چلائیں اور پاکستان اور بھارت کو سرحدوں کی حفاظت کاکام سونپ دیا جائے جو دونوں ممالک سے ملتی ہیں اگر ایسا ہوجائے تو ریاستِ کشمیر اس قابل ہوگی کہ وہ اپنے وسائل کوترقی دے اور اسطرح وہاں کے لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر بنائے جو صدیوں سے مصائب میں مبتلا ہیں، کشمیری بہن بھائیوں نے جو اتنے برسوں سے تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلیں ہیں کس حد تک یہ انکا صلہ ہوگا ،بطور پاکستانی قوم ہم اُمید کرسکتے ہیں کہ دونوں ممالک کی قیادت اس پر غور کرے گی اور اس مسئلہ کے حل کی طرف سنجیدگی سے فیصلہ سازی کرے گی ۔
اس تنازعہ کے حل سے پاک بھارت بشمول ریاستِ کشمر کے لوگوں پر دور رس بہتر اثرات مرتب ہونگے اور باہمی تعلقات میں اصافہ کے ساتھ نسِل انسانی کے قتل عام، عورتوں کی عصمت دری کی روک تھام ہوسکے گی۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.