یوم یکجہتی کشمیر اور ہمارا قومی مسائل کے بارے رویہ!

 یوم یکجہتی کشمیر اور ہمارا قومی مسائل کے بارے رویہ!
 یوم یکجہتی کشمیر اور ہمارا قومی مسائل کے بارے رویہ!

  


 پوری دنیا میں مظلوم کشمیریوں کے ساتھ آج (اتوار) اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر، آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔ اجتماعات منعقد ہوں گے اور اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اقوام عالم سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کشمیریوں کو ان کا حق ارادیت دلایا جائے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر تنازعہ کشمیر سب سے پرانا ہے اور مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق کشمیر میں استصواب کرائے اور کشمیریوں کو رائے دہی کا حق استعمال کرنے دیا جائے کہ وہ اپنا مستقبل بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتے ہیں، سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ خود بھارت کے آنجہانی وزیراعظم جواہر لال نہرو لے کر گئے اور غیر مشروط طور پر استصواب کا وعدہ کیا اور قرارداد کو منظور کیا۔ اس کے بعد 70سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت کے ہر حکمران نے خلاف ورزی کی اور پھر کشمیر میں مظالم ڈھائے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کی نو لاکھ سے زیادہ مسلح فوج کشمیریوں کی زندگی حرام کئے ہوئے ہے۔ مودی حکومت نے کشمیر کی وہ خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی جو خود بھارتی آئین میں رکھی گئی تھی اور اب اپنے غاصبانہ قصبہ میں موجود کشمیر کو بھارت کا دائمی حصہ بنانے کی کارروائی جاری ہے حتیٰ کہ انسانیت سوز مظالم کے علاوہ یکطرفہ نوعیت کی قانون سازی کرکے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تک بھارت تمام تر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کر سکا۔


موجودہ آزاد کشمیر (حکومت آزاد جموں و کشمیر)1948ءمیں مجاہدین کی اس جدوجہد کے صلہ میں حاصل ہوا جو ”کشمیری جہاد“ کے حوالے سے شروع کی گئی تھی، عینی شاہدین (ان میں مولانا ابولحسنات اور خود میرے والد چودھری احمد الدین مرحوم بھی شامل ہیں) کے مطابق بھارت کی طرف سے خاموشی سے فوج اتارنے کے جواب میں کشمیریوں اور مجاہدین نے دست بدست جنگ شروع کی۔ ان میں ہمارے اپنے شہروں سے رضاکار بھی شامل تھے اور اس جدوجہد ہی کے نتیجے میں موجودہ حصہ آزاد ہوا، بتایا جاتا ہے کہ اگر جنگ بندی نہ ہوتی تو مجاہدین سری نگر تک جا سکتے تھے حالانکہ اس وقت پاکستان فوج کے سربراہوں نے (جو گورے برطانوی تھے) فوج کا تعاون دینے سے انکار کر دیا تھا، اس کے باوجود مجاہدین کا پلہ بھاری رہا اور پنڈت نہرو بھاگ کر اقوام متحدہ پہنچے اور پھر سلامتی کونسل نے سیز فائر کرا دیا، قرارداد جو منظور کی گئی اس میں کشمیریوں کو حق خودارادی دیا گیا اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نے اسے تسلیم بھی کیا تھا لیکن عمل درآمد سے مکر گئے اور حیلے بہانوں سے وقت گزارتے رہے، اس عرصہ میں پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی سیاسی اور اخلاقی حمائت جاری رہی جس کے نتیجے میں 1965ءکی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جب بھارت نے کشمیر جاتا دیکھ کر بین الاقوامی سرحد کسی چیلنج کے بغیر رات کی تاریکی میں عبور کی تھی، پاکستان کی قوم کے جذبہ اور فوج کی بہادری اور قربانیوں سے ملک کا بھرپور دفاع کیا گیا اور بھارت والے ناکام ہوئے اور اپنا منہ لے کر بیٹھ گئے لیکن وعدہ پورا نہ کیا۔
پاکستان کی طرف سے یہ مسئلہ ہر فورم پر اٹھایا گیا اور اب تک حمائت جاری ہے لیکن اقوام عالمی اب وعدہ پورا نہیں کر پاتیں، اب تو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد دنیا بھر کو جواب ہی سا دے دیا ہے ۔ او آئی سی کی طرف سے بھی مکمل اظہار یکجہتی کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ بھارت کشمیریوں کے انسانی حقوق غصب کرنے کی بجائے ان کو اظہار رائے کا حق دے۔ جہاں تک پاکستان کے موقف کا تعلق ہے تو اس میں تسلسل موجود ہے اور ہر فورم پر کشمیریوں کے حق رائے دہی کے لئے آواز بلند کی گئی، اگرچہ مختلف جماعتوں کا انداز فکر الگ الگ رہا لیکن موقف میں یکسانیت ہے جو اس کے باوجود موجود ہے کہ حالیہ محاذ آرائی کے دور میں کشمیر کے معاملے میں بھی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ہوتی ہے تاہم قومی سطح پر کشمیریوں کی مکمل حمائت موجود ہےّ


یہ تنازعہ پرانا ہے تو پاکستانی بھی اس کی اونچ نیچ سے آگاہ ہیں عوام تو سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر پوری قوم ایک پیج پر ہے تو سیاسی جماعتوں اور اکابر کو بھی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے دکھ کا مقام ہے کہ ہم تو آپس میں اس بُری طرح تقسیم کا شکار اور بٹے ہوئے ہیں کہ خود اپنے پاکستان میں نظام کو چلنے نہیں دے رہے۔ آج ہمارا یہ ملک خداداد پاکستان خطرات سے دوچار ہے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کا مقابلہ اس صورت میں کرنا ہے کہ ڈیفالٹ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اور آئی ایم ایف اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ ابھی گزشتہ روز بتایا گیاکہ مذاکرات کا راﺅنڈ مکمل ہو گیا۔پاکستان شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے، جن کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ اور بڑھیں گے اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ایسے میں کسی فلسفے کی نہیں دانائی اور عقل کی ضرورت ہے کہ محاذ آرائی ترک کرکے ہمیں قومی سلامتی کے لئے اکٹھا ہونا چاہیے صرف اسی صورت میں ملک کو آفات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، لیکن سیاسی سطح پر اب نظر نہیں آ رہا، حتیٰ کہ 7فروری کو دہشت گردی کے موضوع پر عمران خان کو مدعو کرنے کے باوجود تحریک انصاف نے نا تو پشاور میں اپیکس کمٹی کے اجلاس میں شرکت کی اور نہ ہی اب کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کا اعلان کیا بلکہ مختلف اعتراض کئے جا رہے ہیں۔ مذاکرات سے تو پہلے ہی سے انکار جاری ہے، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے موضوع پر تقریبات تو ہو رہی ہیں لیکن قومی اتفاق رائے نظر نہیں آتا جو تمام امور میں ضروری ہے۔

مزید :

رائے -کالم -