فروری، ایک تاریخی دن!
5
کشمیر کے فرزندانِ اسلام! اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھو۔ ہر غیرت مند مسلمان تمھارے ساتھ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ شہ رگ بنیے کے قبضے میں ہے۔ ہمارے وزرائے اعظم اقوام متحدہ کے بعض اجلاسوں میں مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرکے جو مثبت تاثر قائم کرتے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعد کے ایام میں اس کا اثر وہ خود اپنے طرز عمل سے زائل کردیتے ہیں۔ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم نے بھارت سے اپنی تجارت اور کاروبار کو ترجیح دے کر اپنے قومی منصب کو ہمیشہ مجروح کیا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم وستم جاری رکھنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کی کئی مزید بٹالینز بھیج دی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں سے پیلٹ بلٹس کے استعمال سے ہزاروں معصوم بچوں کو بینائی سے محروم اور لاتعداد کشمیری عوام کو گولیوں سے بھون کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ برہان مظفروانی شہید کے بعد تو وادی¿ کشمیر قتل گڑھ بن چکی ہے۔ ظالم بھارتیوں نے اہلِ کشمیر پر زمین تنگ کردی ہے، مگر کشمیری عوام ان شاءاللہ آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرکے دم لیں گے۔ خطہ¿ کشمیر، ارضِ فلسطین، شام اور میانمار کا علاقہ دھرتی کے مظلوم ترین گوشے ہیں۔
کشمیر جنت نظیر کی سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان کی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اورپوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے ۔پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تحریکِ حریت کشمیر، پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا برملا اظہار کرتی ہے۔ افسوس پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم و ملت کے اس اہم ترین مسئلے کو نہ صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ حریت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مجرم بھی ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بلاوجہ بھارت کی محبت میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ جو شخص کشمیر سے محبت رکھتا ہے وہ بھارت کو پسندیدہ ملک کیسے قرار دے سکتا ہے۔ افسوس کہ بھارت کے یار خونِ شہدا کی قدر و قیمت سے تو نابلد ہیں ہی، اس بنیادی انسانی غیرت سے بھی محروم ہوچکے ہیں کہ دخترانِ ملت کی عزتیں لوٹنے والوں سے دوستی کیونکر ممکن ہے؟ کشمیری حریت پسند روزِ اول سے بھارتی تسلط کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں۔ پہلے بھارتی فوجیں یک طرفہ خون کی ہولی کھیلتی تھیں۔ تیس، بتیس سال قبل کشمیریوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی درندوں کی لاشیں انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے لگیں تو بھارتی بنیے کو احساس ہوا کہ کشمیر کو غلام رکھنا اب ان کے بس میں نہیں۔ برہان وانی اور دیگر شہدا اب آزادی کا سمبل بن کر ہر کشمیری کے دل میں زندہ ہیں، ہر نوجوان اب آزادی کے لیے جان ہتھیلی پہ لیے میدانِ جہاد میں سرگرمِ عمل ہے۔
کشمیری حریت پسند مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے مصروفِ جہاد تھے۔ پھر انھوں نے تحریک حریت کشمیر کو متحدہ پلیٹ فارم کی شکل دی اور سید علی گیلانی کی صورت میں ایک ایسی قیادت خطے کو نصیب ہوئی جو ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ جسمانی لحاظ سے بظاہر کمزور، عمر رسیدہ، مختلف امراض سے نڈھال، علی گیلانی عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر رکھتے ہیں۔ وہ واقعتا حیدرکرار ؓ کی تلوار ، خالدؓ کی للکار اور طارقؒ کی یلغار کا نمونہ ہیں۔ تحریک حریت کی متحدہ کاوشوں اور سید علی گیلانی کی کرشمہ ساز شخصیت نے سردخانے میں پڑے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پھر زندہ کردیا تھا۔ جن کشمیریوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی بندوق کے بارے میں کہتے ہیں ”دھپ چڑھسی تے ٹھُس کَرسی“ وہ شاہین بن کر اپنے دشمن پر چھپٹے، بقول اقبال:
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا!
پاکستان اور آزاد کشمیر جہاد کشمیر کا بیس کیمپ ہیں۔ پاکستان اس مسئلے میں مداخلت کار نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فیصلوں نے اسے باقاعدہ فریق کا درجہ دیا ہے۔ سیدعلی گیلانی نے کشمیری عوام کے دلوںمیں ایسا جذبہ پیدا کردیا ہے کہ اب وہ کسی صورت اپنی مادرِ وطن کو ہندو بنیے کے قبضے میں نہیں دیکھ سکتے۔ 5فروری کشمیریوں اور ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے حامیوں کے لیے ایک بہت اہم دن بن گیا ہے۔ یہ دن ”یوم یکجہتی کشمیر“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں یہ دن عوامی، سرکاری اور قومی دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا آغاز 1990ءمیں ہوا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور بے نظیر بھٹو مرحومہ وزیراعظم پاکستان تھیں۔ مجھے آج بھی وہ تاریخی لمحہ یاد ہے جب جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے ذمہ دارانِ جماعت اسلامی کی ایک نشست میں یکجہتی کشمیر کے لیے دن منانے کا تصور پیش کیاجسے سراہا گیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ ملک کے تمام عناصر و مسالک، حکومتی اور غیر حکومتی ادارے غرض پوری قوم یک زبان ہوکر مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائیں۔
اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے اس پروگرام کا پورا لائحہ¿ عمل مرتب کیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ قاضی صاحب حکمرانوں سے ملاقات کرکے انھیں بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ قاضی صاحب نے اس سلسلے میں میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کی اور 9 جنوری 1990 کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعتی فیصلوں کے مطابق 5 فروری 1990ءکا دن ”یوم یکجہتی کشمیر“ کے طورپر منانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی بھر پور کردار ادا کیا اورالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس مطالبے کو خوب پذیرائی ملی۔ پنجاب حکومت نے سرکاری سطح پریومِ یکجہتی کشمیر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس تحرّک کے نتیجے میں ملک میں ایسی فضا بن گئی کہ وزیراعظم پاکستان، بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس مطالبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے 5 فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دیا۔
وزیراعظم بے نظیر نے اس اعلان کے ساتھ عملاً بھی اس جانب پیش قدمی کی، جس کی تحسین ضروری ہے۔ مرحومہ نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا، جس میں بھارتی مظالم کی مکمل تصویر پیش کرتے ہوئے پرجوش انداز میں تحریک آزادی کشمیر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ بینظیر بھٹو مرحومہ کی تقاریر میں سے ان کا وہ خطاب بہت جامع اور موثر ہے۔ یہ دن ایک قومی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور اس سے انحراف کسی کے بس میں نہیں۔ اس روز پوری دنیا یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم بڑے شہروں سے لے کر چھوٹی چھوٹی بستیوں تک اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہوتی ہے۔ یہ یوم یکجہتی قاضی حسین احمد رحمة اللہ علیہ کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔