جدوجہد ِ آزادی کشمیر اور پاکستانی حکمران!
مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کا ایک نامکمل ایجنڈہ ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر قیامِ امن کو جن مسائل سے شدید خطرات لاحق ہیں ان میں سے بلاشبہ مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ تین ایٹمی قوتوں (پاکستان، بھارت اور چین) کے بیچ واقع خطہ جنت نظیر– وادی کشمیر – پر ا?س وقت تک جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے جب تک اس دیرینہ مسئلہ کو وہاں کی عوام کے خواہشات کے مطابق حل نہ کیا جائے۔ پاکستان و بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہی کشمیر ہے۔ خدانخواستہ یہ دونوں ایٹمی قوتیں کسی وقت جنگ میں ا?لجھ کر ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی اسلحہ استعمال کربیٹھے تو اس جنت نظیر وادی سمیت پورا خطہ ایک ایسی ہولناک تباہی و بربادی کی لپیٹ میں آجائے گا جس کی نظیر نہ تو ہیروشیما و ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملے کی صورت میں ملے گی اور نہ ہی کسی اور سانحے کی شکل میں۔
بدقسمتی سے تقسیمِ ہند کے وقت ریڈکلف ایوارڈ کے دوران ہندو اور انگریز سامراج کی باہمی ساز باز کے نتیجے میں خطہ کشمیر کے پاکستان سے طے شدہ معاہدے کے تحت الحاق کی بجائے وادی میں ہندو فوج کی کثیر تعداد بھیج دی گئی تاکہ وہاں پر موجود آزادی کی روح کو پروان چڑھنے سے روکا جائے۔ اس غیر متوقع اور غیر انسانی فوج کشی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 22 اکتوبر 1947ء_ کو پہلی جنگ چھڑگئی جوکہ 05 جنوری 1949 تک جاری رہی۔ ایک سال 2 ماہ اور 2 ہفتہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں اطراف سے بھاری جانی و مالی نقصان اور بھارتی فوج کے سر پر شکست کے منڈلاتے بادل کو دیکھتے ہوئے بھارتی قیادت نے ایک سازش کے تحت اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور بالآخر اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کی خونی لکیر کھینچ دی گئی۔ پاکستان کے حصے میں موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جبکہ بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور لداخ کے علاقے چلے گئے۔اقوامِ متحدہ نے بھارتی واویلا پر 1948 میں عارضی جنگ بندی اس وعدے پر کرائی کہ کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دیا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی، تاکہ کشمیری عوام خود یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ پاکستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کیساتھ۔ مگر افسوس کہ اقوامِ متحدہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کراسکا۔
بظاہر دنیا بھر میں قیامِ امن کا ضامن اقوامِ متحدہ تاریخی طور پر چند بڑی طاقتوں کی جاگیر اور آماجگاہ کے سوا کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا۔ سابق سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد عملاً یہ ادارہ امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کرتا چلاآرہا ہے۔ روس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو ویٹو کیا، امریکہ نے بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے اس مسئلے پر ہمیشہ دھوکہ دیا۔ پاکستان کی کمزور اور ناقص خارجہ پالیسی نے اس مسئلہ کو اور زیادہ گھمبیر اور حل سے کوسوں دور کردیا۔ پاکستانی حکمرانوں کی سردمہری اور ناقص خارجہ پالیسی کے نتیجے میں چین، ایران اور سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست اور حمایتی بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت سے دست کش ہوکر غیرجانبداری کی روش اختیار کرچکے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تجویز بھی کئی دفعہ زیر غورآئی۔ برطانیہ، امریکہ نے ثالثی کے لیے کردار ادا کرنے کی متعدد پیش کشیں کیں۔ چین نے بھی اس پر آمادگی کا اظہار کیا، ایران نے خدمات پیش کیں، مگر بھارت کی ہٹ دھرمی او ر'میں نہ مانوں ' اور 'اٹوٹ انگ' کی رِٹ نے ان تمام ممالک کی کوششوں پربھی پانی پھیرا۔
مودی کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے اقدام پر پاکستانی حکومت اور حکمرانوں کا طرزِ عمل بچگانہ اور کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کی ا?منگوں کے بالکل برعکس تھا۔سابق وزیر اعظم نے اس اہم موقع پر بین الاقوامی برادری کو متحرک کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سیاسی، سفارتی ذرائع سے مؤثر بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اٹھانے کی بجائے ایسے بیانات دیے جو کشمیریوں کے زخم پر نمک پاشی کے مترادف تھے۔ انہوں نے پ?رعزم اور پ?رجوش کشمیری نوجوانوں کی طرف سے غاصب بھارتی سرکار کے خلاف بطور احتجاج کنٹرول لائن تک جانے کی خواہش کو غداری قرار دیا اور ایسا کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ نیز حسبِ دستور کشمیری عوام سے جھوٹے وعدے کیے کہ وہ اس دفعہ اقوامِ متحدہ میں جاکر مسئلہ کشمیر کو حل کرالیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس کے برعکس کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے سامنے مقبول پاکستانی مؤقف رکھنے کی بجائے موجودہ وزیر اعظم نے بھی مودی سے ہی امن کی توقعات وابستہ کرلیں، جس پر کشمیری اور پاکستانی عوام نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اس غیرذمہ دارانہ، ریاست مخالف بیانیہ پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔مودی سے امن کی توقعات رکھنے والی حکومت اس قدر رجائیت پسندی کا شکار ہوئی کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہ کرسکی۔
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی تیاری اس قدر کمزور ہے کہ اِسے ثالثی کے لیے بار بار امریکا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ثالثی کی بات کی۔ کسی بھی طرح کی ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کے تمام فریق ثالثی کو قبول کریں۔ لہٰذا مودی سرکار کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر کسی بھی ثالثی کو ماننے سے صاف انکار کردیاگیا۔مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق پاکستانی عوام کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے، اور اس کے لیے کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بہت ہی مثالی صورت حال ہوگی۔ لیکن بھارت کی طرف سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے مسلسل انکار اور پاکستانی حکومت کی عدم توجہی سے آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کشمیر کی خودمختاری بھی چھین لی گئی ہے جس کے بعد ریفرنڈم کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر جیسے دیرینہ علاقائی اور پاکستان و بھارت کے مابین بنیادی مسئلے کو کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے دیرینہ موقف کے مطابق حل کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوائے ورنہ یہ سعادت تو آئندہ آنے والے کسی نہ کسی حکمران کے حصے میں آہی جائے گی، ان شاء اللہ، لیکن موجودہ حکمران بہرحال اس بہت بڑی اور تاریخی کامیابی سے محروم رہیں گے۔مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے میں مضمر ہے۔ جتنی جلد ہمارے حکمران اس حقیقت کو سمجھ پائیں اتنی ہی جلد یہ مسئلہ حل ہوکر تاریخ کا حصہ بن پائے گا۔ کشمیری شہداء_، خواہ وہ سید علی گیلانیؒ ہوں یا محمد اشرف صحرائی، یا میدانِ جہاد میں غاصب بھارتی سورماؤں کو تگنی کا ناچ نچانے والے جرات مند کشمیری مجاہدین برہان مظفر وانی شہید اور جہادِ کشمیر کے دیگر کمانڈر یا پھر جامِ شہادت نوش کرنے والے کشمیری نوجوان، عورتیں، بزرگ، بچے ہوں، ان سب کی قربانیوں کا تقاضا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے دیرینہ اور پائیدار حل کے لیے تینوں بنیادی فریق (کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت) کی باہمی رضامندی سے ایک ایسا حل نکالا جائے جو کشمیری عوام کے لیے قابل قبول ہو۔اگر یہ ساری کوششیں بھی خدانخواستہ بارآور ثابت نہ ہوں تو پھرتنازعہ کشمیر کے حل کی ایک ہی قابل عمل صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جہادِ کشمیر کامیابی سے ہمکنار ہو، اور افغان عوام کی طرح کشمیری عوام کو بھی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنا نصیب ہو۔ ان شا ء اللہ!
٭٭٭