سیمنٹ ایکسپورٹ، کسٹم حکام اور ایجنٹوں کی ملی بھگت سے بد عنوانیوں کا سلسلہ بدستور جاری
جنوبی وزیرستان(نمائندہ خصوصی) پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں کسٹم حکام اور ایجنٹوں کی ملی بھگت سے ہونے والی بدعنوانیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اعلی کسٹم حکام کی جانب سے بنائی گئی انکوائری ٹوپی ڈرامہ نکلی۔ زرائع کے مطابق، پاکستان سے افغانستان کے لیے بھیجی جانے والی سیمنٹ کی بڑی مقدار، جس کا مقصد افغانستان میں استعمال ہونا تھا، پاکستان کی مختلف علاقے، میران شاہ، میرعلی، رزمک مکین، لدھا، ٹانک کے بازاروں اور مارکیٹوں میں فروخت ہو رہی ہے۔ یہ سب کسٹم حکام اور ایجنٹس کی آپس کی سازشوں کے نتیجے میں ہو رہا ہے، جو رشوت لے کر ان گاڑیوں کے کاغذات پر تصدیق کرکے انہیں افغانستان جانے کی بجائے واپس پاکستان لے آتے ہیں اور مختلف علاقوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔غلام خان کسٹم ٹرمینل پر تعینات کسٹم حکام اور ایجنٹس کے درمیان گھٹ جوڑ کی وجہ سے یہ دھندا چل رہا ہے۔ ان حکام میں سپرنٹنڈنٹ جواد سلطان اور انسپکٹر بنارس خان شامل ہیں، جو رشوت کے عوض گاڑیوں کے کاغذات پر سٹمپ لگا کر افغانستان جانے کی تصدیق کرتے ہیں، حالانکہ ان گاڑیوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ان سیمنٹ کی قیمتیں بھی حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لیے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کی وجہ سے کم ہیں، جس کا فائدہ اٹھا کر یہ سیمنٹ پاکستانی مارکیٹوں میں بیچی جا رہی ہے۔اس بدعنوانی کے نتیجے میں ملکی معیشت کو شدید نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ اس طرح ٹیکس چوری کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور حکومت کو اس نقصان کا سامنا ہے۔ کچھ عرصہ قبل چیف کلیکٹر خیبر پختونخواہ نے اس سکینڈل کے خلاف انکوائری کا حکم دیا تھا، مگر تین ماہ گزر جانے کے باوجود انکوائری کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اور بدعنوانیوں میں ملوث کسٹم اہلکار ابھی بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں جو حکومت کی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے اور اس کے روک تھام کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی خزانے کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔