فروری اور لاہور کے میلے ٹھیلے

لاہور میں آج سے پانچ روزہ انٹرنیشنل کتاب میلہ منعقد ہو رہا ہے۔ایکسپو سنٹر جوہر ٹاؤن میں ملکی اور بین الاقوامی کتابوں کے پبلشرز تین سو سٹالوں پر اپنی کتابوں کی نمائش لگائیں گے جہاں سے رعایتی نرخوں میں کتابیں خریدی جا سکیں گی اس بار فروری کا مہینہ لاہور میں تقریبات کی بہار لے کر آ رہا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مارچ کا مہینہ ماہِ رمضان پر مشتمل ہو گا جن دِنوں ایکسپو سنٹر میں کتابوں کا میلہ چل رہا ہو گا،یعنی پانچ فروری تا9فروری،انہی دِنوں الحمراء میں جشن ِ پنجابی بھی دھوم دھام سے منایا جائے گا۔ سات فروری سے9فروری تک ہونے والے اس جشنِ پنجابی کے بارے میں سپوکس پرسن ڈاکٹر شمائلہ حسین نے بتایا اس تین روزہ جشن ِ پنجابی میں پنجابی ثقافت، پنجابی موسیقی، شاعری، بھنگڑے اور دیگر تقریبات و لوازمات موجود ہوں گے۔لاہور میں ہونے والا یہ جشن تادیر یاد رہے گا۔اِسی طرح بزم غالب بھی متحرک ہے اور اُس کے منتظمین نے15فروری کو لاہور ہائیکورٹ کے شہداء ہال میں غالب انٹرنیشنل ایوارڈ کی تقریب کا اہتمام کیا ہے۔ بزم غالب کے روحِ رواں معروف شاعر خالد نقاش اس تقریب کو یادگار بنانے کے لئے بڑی محنت کر رہے ہیں۔ غالب ایوارڈ ادب سے وابستہ ملکی اور غیر ملکی ادبی شخصیات کو دیئے جائیں گے۔اسی فروری میں فیض میلہ بھی الحمراء لاہور میں ہو گا، جو لاہور کا ایک بڑا ادبی ایونٹ ہوتا ہے جس میں فیض احمد فیض کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ افکارِ فیض کو مختلف فنی پیرائے میں اُجاگر کیا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی اسی مہینے کے آخری ہفتے میں ایک بڑا کتاب میلہ ہو گا جس کے لئے بھرپور انتظامات جاری ہیں یوں لاہور جو رنگوں اور روشنیوں کا شہر ہے۔ادب و ثقافت اور علمی و ادبی تقریبات کے حوالے سے بھی پوری طرح بیدار ہونے جا رہا ہے۔
جہاں تک ایکسپو سنٹر میں ہونے والے کتاب میلے کا تعلق ہے تو کراچی اور لاہور میں دو ایسے کتاب میلے لگتے ہیں، جن کی گونج عالمی سطح تک سنائی دیتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق کروڑوں روپے کی کتابیں ان میلوں کے ذریعے بکتی ہیں اور ملک میں کتاب کلچر کو فروغ ملتا ہے۔قلم فاؤنڈیشن لاہور کے چیف ایگزیکٹو جو لاہور کتاب میلے کو کامیاب بنانے کے لئے سرگرم ہیں یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ ان میلوں کے لئے سٹال کی بکنگ فری ہونی چاہئے۔ لاکھوں روپے سٹال کی مد میں وصول کر کے حکومت کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا البتہ قارئین کے لئے کتاب مہنگی ہو جاتی ہے۔حکومت اگر سٹال فری کر کے کتابوں پر رعایت کی ایک شرح مقرر کر دے تو کتابیں بھی زیادہ فروخت ہوں گی اور کتابیں نہ پڑھنے کے رجحان کو بھی روکا جا سکے گا۔اُن کی تجویز پر غور کیا جانا چاہئے۔خاص طور پر سرکاری اداروں میں کتابوں کی نمائش کے لئے فری سٹالز الاٹ کئے جانا چاہئیں یہ حکومت کی طرف سے کتاب کلچر کو بڑھانے میں ایک طرح سے اپنا حصہ ڈالنے کی ایک صورت ہو گی۔
لاہور کا کتاب میلہ جو ہر سال منعقد ہوتا ہے۔ایک فیملی فیسٹیول کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس میں مختلف پروگرام ہوتے ہیں۔کتابوں کی رونمائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ معروف ادیب اور شاعر بذاتِ خود مختلف ناشرین کے سٹالوں پر موجود ہوتے ہیں اور اپنے دستخطوں کے ساتھ کتاب پیش کرتے ہیں۔بچوں کے لئے دلچسپی کے علیحدہ سامان مہیا ہوتے ہیں جبکہ کھانے پینے کے کاؤنٹرز بھی لذت و کام و دہن کی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ان پانچ دِنوں میں ملک بھر سے لاکھوں کتاب لوورز اِس میں شریک ہوں گے، معاشرے میں گھٹن، مایوسی اور نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں ایسی صحت مند سرگرمیاں معاشرے کو تازہ آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔لاہور کے زندہ دلان اسی لئے زندہ دِل ہیں کہ انہیں ادبی،ثقافتی، علمی اور تنوع سرگرمیوں کے مواقع ملتے ہیں۔ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی اگرچہ مختلف نوعیت کی تقریبات ہوتی ہیں تاہم اُن کا پیمانہ اتنا وسیع نہیں ہوتا جتنا لاہور میں ہونے والی تقریبات کا ہوتا ہے۔ معروف سفر نامہ نگار،دانشور اور جمہوری پبلی کیشنز کے روح رواں فرخ سہیل گوئندی نے اس موقع پر لاہور کے مکینوں کو ایک بہت خوبصورت پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے لاہور ایسے تو میلوں ٹھیلوں کا شہر ہے تاہم انٹرنیشنل بُک فیئر لاہور کی ایک بڑی شناخت ہے اس میلے میں لاہور کی کریم حصہ لیتی ہے اس میں دلچسپی کے کئی سامان ہوتے ہیں اس میلے میں فیملیز،خصوصاً خواتین کو اپنے بچوں سمیت ضرور آنا چاہئے تاکہ اُن میں کتاب سے محبت کا جذبہ پیدا ہو۔فرخ سہیل گوئندی نے کہا میں اپنی والدہ کو لے کر اِس کتاب میلے میں ضرور جاتا ہوں،بچوں اور بہنوں کو بھی ترغیب دیتا ہوں اس سلسلے میں قارئین کو نایاب اور مشہور کتابیں سستے داموں مل جاتی ہیں جو سارا سال اُن کے مطالعے کی تسکین کا ذریعہ بنی رہتی ہیں۔
پنجاب حکومت اگر چاہے تو ایسے کتاب میلوں کا دائرہ پورے صوبے میں پھیلا سکتی ہے،وزیراعلیٰ مریم نواز بہت سے غیر روایتی کام کر رہی ہے۔ اس شعبے کی طرف بھی انہیں توجہ دینی چاہئے،خاص طور پر پنجاب کے تمام ڈویژنل صدر مقامات پر کتاب میلوں کے انعقاد کا حکم دیں اور متعلقہ کمشنروں کہ یہ ٹاسک سونپیں اس کے لئے جگہیں مختص کی جا سکتی ہیں۔ بڑی یونیورسٹیوں کو بھی اس مہم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ لاہور ادب و ثقافت کا حب ہے،اُس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا تاہم اس تاثر کو ختم ہونا چاہئے کہ صرف لاہور ہی کو پنجاب سمجھ لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز اس محدود سوچ سے باہر نکل رہی ہیں اور اس کے کچھ شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔مثلاً انہوں نے ملتان میں تاریخی و ثقافتی ورثے کو اس کی اصل حالت میں لانے کا ٹاسک دیا ہے اور لاہور کی طرز پر والڈ سٹی کو اُس تاریخی شناخت کے ساتھ بحالی کا حکم دیا ہے۔کمشنر ملتان عامر کریم خان نے ایک دن پہلے اِس حوالے سے ایک میٹنگ کی اور یہ فیصلہ کیا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت کے مطابق قلعہ کہنہ قاسم باغ پر قائم تمام سرکاری دفاتر وہاں سے منتقل کر دیئے جائیں گے۔یاد رہے کہ یہاں پولیس نے عین وسط میں ٹریفک لائسنس آفس اور پولیس خدمت مرکز بنایا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس تاریخی جگہ کی شناخت ختم ہو رہی ہے۔قلعہ کہنہ قاسم باغ پر حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت شاہ رکن الدین عالم کے مزارات موجود ہیں جو اِس کی اصل شناخت ہیں۔لاہور طرز کے کتاب اور دیگر میلے اگر پنجاب بھر میں منعقد ہوں تو اس سے عوام کو وہی کشادہ ذہنی اور زندہ دِلی میسر آئے گی جو اہل ِ لاہور کی پہچان ہے۔لاہور میں عالمی کتاب میلہ کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئی ہیں،کل جوہر ٹاؤن میں موجود مقیم ایک کتاب لورز دوست ذوالقدر نے مجھے بتایا کہ لاہور کی سڑکیں اِس کتاب میلے کے رنگارنگ تشہیری بل بورڈ سے بھری ہوئی ہیں،ہم بڑی بے تابی سے اس کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں،نئیں ریساں شہر لہور دیاں۔