اندرون ملک جانے والی گاڑی پر پہلے اس کا نام اور پھرنمبر کیساتھ اپ لکھا جاتا ہے، واپسی پر اس سے اگلا نمبر لگا کر اس کیساتھ ڈاؤن لکھا جاتا ہے

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:30
ہر گاڑی کو اس کے نام کے علاوہ ایک مخصوص اور مستقل نمبر بھی الاٹ کر دیا جاتا ہے جو نام کے بعد لگا ہوتا ہے۔ اندرون ملک جانے والی گاڑی پر پہلے اس کا نام اور پھرنمبر کیساتھ اپ لکھا جاتا ہے اور واپسی پر اس سے اگلا نمبر لگا کر اس کیساتھ ڈاؤن لکھا جاتا ہے۔ اپ گاڑی کا نمبر طاق ہوتاہے جب کہ ڈاؤن والی گاڑی کا نمبرجفت۔مثلاً پاکستان کی سب سے پہلی گاڑی خیبر میل کو کراچی سے پشاور جاتے وقت خیبر میل 1اپ اور واپسی پر خیبر میل 2 ڈاؤن یا عوام ایکسپریس 13 اپ اور عوام ایکسپریس 14 ڈاؤن لکھا جاتا ہے۔
ایسے ہی ڈبل لائن والے اسٹیشنوں پر 2 علیٰحدہ پلیٹ فارم بن جاتے ہیں جہاں آنے جانے والی گاڑیاں دوسری گاڑیوں کا راستہ روکے بغیر یا ان کی رفتار میں خلل ڈالے بغیر رک سکتی ہیں یا رواں دواں رہتی ہیں۔ہر اسٹیشن پر اس بات کا انتظام ہوتا ہے کہ ہنگامی صورت حال میں اگر ایک لائن بند ہو جائے تو وہاں پہنچنے والی گاڑیوں کو متبادل راستے سے اگلے اسٹیشن تک پہنچا دیا جائے تاکہ وہ آگے اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
بالفرض ایک اسٹیشن کے آگے کسی حادثے یا مرمت کی صورت میں ایک پٹری استعمال نہیں ہو سکتی تو پچھلے اسٹیشن پر ہی اس گاڑی کو دوسری لائن پر ڈال دیا جاتا ہے، اور پھراگلے اسٹیشن پر اسے ایک بارپھراس کی اپنی سمت والی پٹری پر بھیج دیا جاتا ہے۔
کون سی گاڑی کون سی لائن سے گزرے گی یا کس گاڑی کو روک کر کس کو پہلے گزارنا ہے یہ فیصلہ اسٹیشن ماسٹر کا ہوتا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر اس وقت تک کسی گاڑی کو اسٹیشن کی حدود میں داخل ہونے یا نکلنے کی اجازت نہیں دیتا جب تک وہ اس بات کو یقینی نہ بنا لے کہ اگلے اسٹیشن تک راستہ بالکل صاف ہے اور لائن پر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ یا پہلے سے روانہ کی گئی کوئی گاڑی تو موجود نہیں ہے۔ یہ سارا کچھ وہ پہلے سے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق کرتا ہے اور اسٹیشن کی طرف آنے والی گاڑیوں کو دن کے اوقات میں سبز جھنڈی اور رات کو سبز رنگ کی روشنی سگنل کے ذریعے یا وہاں سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کے ڈرائیور کو اِجازت نامہ تحریری یا ٹوکن کی شکل میں دیتا ہے۔ اس اجازت کے بغیر کوئی بھی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔
ریک لائن
ریلوے کی عام سی پٹری تو عموماً ہموار سطح پر بچھائی جاتی ہے، جس پر گاڑی بغیر کسی دقت کے دوڑی جاتی ہے۔ بسا اوقات پہاڑی راستے میں کچھ مقام ایسے بھی آ جاتے ہیں جہاں کچھ بلندی آ جاتی ہے اس لیے لائن کو بھی ضرورت کے مطابق لیکن ایک خاص حد اور زاویہ تک آہستہ آہستہ بلندی پر لے جایا جاتاہے۔ اس کیلیے پٹری کو کافی پہلے سے ہی اوپر اٹھایاجاتا ہے۔ اس زاویہ کا ایک خاص فارمولے سے تعین کیا جاتا ہے جس میں بلندی، گاڑی کی اوسط رفتار اور وزن وغیرہ کو جمع تفریق کرکے ایک خاص زاویہ نکالاجاتا ہے۔عام طور پر پٹری کی اْٹھان 3سے4 فیصد ہوتی ہے۔ اگر انجن طاقتور ہو، یا ایک اضافی انجن گاڑی کے پیچھے لگا دیا جائے تو یہ زاویہ 5 فیصد تک بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ گاڑی اگر تیز رفتاری سے چل رہی ہو تو یہ چڑھائی اتنی مشکل نہیں لگتی، تاہم سست رفتار اور بھاری گاڑی کے لیے یہ بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات اس کا پیچھے کی طرف پھسل جانے کا خطرہ ہوتا ہے یا مزید آگے بڑھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔