ہمارے گھر کے سامنے ایک بابا رہا کرتا تھا،محلے کے بچے اسے ”بابا گونگلو“ کے نام سے چھیڑتے،وہ اس نام سے چڑ کھاتااور مارنے کیلئے پیچھے دوڑتا

ہمارے گھر کے سامنے ایک بابا رہا کرتا تھا،محلے کے بچے اسے ”بابا گونگلو“ کے ...
ہمارے گھر کے سامنے ایک بابا رہا کرتا تھا،محلے کے بچے اسے ”بابا گونگلو“ کے نام سے چھیڑتے،وہ اس نام سے چڑ کھاتااور مارنے کیلئے پیچھے دوڑتا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:71
شرارتیں چھوٹوں کی؛
94 بی بلاک میں ہمارے گھر کے سامنے 107 بی میں ایک بابا رہا کرتا تھا۔اس کی بیوی بھی بہت سن رسیدہ تھی۔ مجھے اس کا اصل نام تو نہیں معلوم لیکن محلے کے بچے جن میں میرے چھوٹے بھائی شہباز، شاہد، عمری(عمر)، گو گا(علی) لالی(ابو بکر) اسمی(عثمان) بلو(بلال) منا(شعیب) اسے ”بابا گونگلو“ کے نام سے چھیڑتے تھے اور وہ اس نام سے بہت چڑ کھاتا تھا۔ جب بھی ایسا ہوتا بابا ان بچوں کے پیچھے دوڑتا لیکن کوئی بھی اس کے ہاتھ نہ آتا وہ اول فول کہتا گھر چلا جاتا۔ اس کی بیوی نے کئی بار اسے سمجھایا کہ بچوں کی بات کا برا نہ منایا کرو لیکن وہ بیوی کی کوئی نہ سنتا بلکہ اسے بھی جلی کٹی سنا دیتا تھا۔ ایک دن حسب عادت بچوں نے اسے چھیڑا وہ ان کے پیچھے بھاگا اور بد قسمتی سے لالی اُس کے ہاتھ لگ گیا۔ بابا 6 فٹ سے زیادہ قد کا تھا اور لالی بے چارہ بمشکل 5 فٹ کا ہوگا اور وہ بھی بچہ۔ بابا اسے مارنا چاہ رہا تھا اور لالی اس کی منتیں کرتا کہے جا رہا تھا؛”بابا گونگلو، بابا گونگلو مینوں چھڈ دے۔ خدا دی قسم اج توں بعد تینوں بابا ھونگلو نیں کواں گا۔“بابا کو غصہ تو بہت آ رہا تھا لیکن وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا؛”سوری دئیے توں مینوں بابا گونگلو کہہ وی ریاں اے تے نال نال کہہ رئیا ایں اگے توں نیں کواں گا۔“ بابا نے اسے کچھ کہے بغیرچھوڑ دیا اور اس دن کے بعد سے اس نے بابا گونگلو کے نام سے چڑ کھانا بھی۔ جب بچوں نے دیکھا کہ اب بابا اس نام کا برا نہیں مناتا تو وہ بھی اُسے اس نام سے پکارنا چھوڑ گئے تھے۔بچپن کی شرارتیں معصوم ہی ہوتی ہیں۔ ان بچوں کی ایک اور شرارت بھی یاد آ گئی جب یہ ذرا سیانے ہو گئے اور سبھی نویں دسویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ میرے گھر سے کچھ فاصلے پر سفیدے کے 3 بہت اونچے اور گھنے درخت تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ سردی کی رات اندھیری گھپ ہوتی ہے۔ جہاں یہ درخت تھے اس کے بالکل سامنے 6 کنال کا خالی پلاٹ تھا(یہ آج بھی ہے)۔ میرے چھوٹے بھائی کا قد6 فٹ ہے اور وہ پنسل کی طرح دبلا پتلا ہوتا تھا۔ اس نے خود پر سفید چادر اوڑھی اور یہ سب بچے ان درختوں کی اوٹ میں چھپ گئے اور کسی بد قسمت راہگیر کا انتظار کرنے لگے۔ بدقسمتی سے ایک سائیکل والا آن نکلا۔ جب وہ ان درختوں کے قریب پہنچا تو میرا بھائی سڑک کے درمیان آ کر کھڑا ہو گیا۔ لمبا تڑنگا سفید چادر اوڑھے ہوئے۔ باقی بچوں نے درختوں کے پیچھے سے ڈراؤنی آوازیں نکالنے لگے اور ایک بچہ ڈفلی بجانے لگا۔ سائیکل سوار نے پہلے تو کلمہ پڑھنے لگا۔ جب آ وزیں اس کے بالکل قریب آ گئیں تو وہ ڈرا، سائیکل سے گرا، اس کی دھوتی کھل گئی اور وہ چیختا  فیروز پور روڈ کی طرٖف دوڑ پڑا۔ یہ بچے بھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے۔ابا جی کو پتہ چلا تو سب سے بہت ناراض ہوئے کہ یوں کسی کو دل کا دورہ بھی پڑ سکتا تھا۔ مگر ان کی شرارتیں کم نہ ہوئیں۔ایک دن میرا دوست مرحوم عتیق گوہر اپنی موٹر سائیکل پر میرے گھر کے آیاتو اس کی نظر زمین پر گرے500 کے نوٹ پر پڑی۔ اس زمانے میں یہ بڑی رقم تھی۔ اس نے موٹر بائیک کھڑی کی اور نوٹ پکڑنے لگا تو  نوٹ سرک گیاوہ سمجھا ہوا سے ایسا ہوا تھا۔ نوٹ اٹھانے کے لئے وہ دوبارہ آ گے بڑھا اور پھر ویسا ہی ہوا۔ تین چار بارکی کوشش کے باوجود وہ نوٹ پکڑنے میں ناکام ہی رہا۔ اتنے میں یہ سب بچے جو میرے گھر کی باڑ کے پیچھے چھپے تھے ہنستے ہو ئے تھے باہر نکلے اور عتیق کو دھاگے سے بندھا جعلی نوٹ دکھایا تو وہ بہت شرمندہ ہوا جبکہ بچے بہت خوش۔عتیق نے یہ قصہ مجھے سنایا تو ہنسی میری بھی نہ رکی تھی۔
 اس دور میں برسات کے موسم میں دیسی گھی کا تڑکا لگی دال، چوپڑی روٹی، سبز مرچ، لیموں اور آم کااچار میرا پسندیدہ تھا۔ میٹھے میں شکر اور دیسی گھی کی روٹی میرے منہ سے نہ اترتی تھی۔  (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -