ٹی وی چینلوں پر بپا تحریک

ٹی وی چینلوں پر بپا تحریک
ٹی وی چینلوں پر بپا تحریک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے ہاں ٹی وی چینلوں پر ان دنوں شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کی تحریک بپا ہے، جس چینل کو کھولئے علامہ صاحب جلوے دکھاتے نظر آتے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم ٹی وی کے آگے بیٹھی ہوئی ہے، ان کا خیال ہوگا کہ ٹاک شوز میں اپنی تحریک پر گفتگو سے وہ قومی شعور کو اپنے حق میںکرلیں گے جبکہ قوم کی اکثریت اس خیال کی حامل ہے کہ ٹاک شوز کے ذریعے شعور کم اور شور زیادہ پھیل رہا ہے، ماضی قریب میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ صرف سیاستدان ہی نہیں ، اینکر پرسنز کا ایک گروہ بھی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ کا پرچار کرتا رہا ہے، بہتان تراشی کرتا رہا ہے اور صورت حال میں دست و گریباں تک پہنچنے کے امکانات بنتے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرے کا سکون تلپٹ ہوگیا ہے ، دوسرے معنوں میں ٹی وی کے ٹاک شوز دکانداریوں میں تبدیل ہو چکے ہیںجن میں عوام کے دکھوں کا مداوا کم اور باتیں زیادہ بکتی ہیں جن کا نتیجہ بھی سوائے باتوں کے کچھ نہیں نکل رہا!
ٹی وی چینلوں کا سارا کاروبار اس ایک اصول پر چلتا ہے کہ ’نیا کیا ہے؟‘اسی لئے ٹی وی سکرین نے مینار پاکستان پر عمران خان کے نعرئہ تبدیلی پر اکتفا نہیں کیا اور جونہی علامہ صاحب نے نعرئہ اصلاحات لگایا ، سب کیمروں کا رخ ان پر کردیا، ٹی وی چینلوں کا سارا فلسفہ یہ ہے کہ کسی بھی ایشو کی وہ بلاشرکت غیرے exclusiveکوریج کریں، خواہ اس کے لئے انہیں کوہ قاف کے پہاڑوں پر ہی کیوں نہ جانا پڑے، پاکستان میں کرنٹ افیئرز کے دس سے بارہ بڑے اور تقریباً اتنے ہی چھوٹے چینل ہیں، جونہی کوئی ایشو جنم لیتا ہے ان بیس پچیس چینلوں میں اس ایشو کی بلا شرکت غیرے کوریج کے لئے دوڑ لگ جاتی ہے اور تقریباً تین ہفتے میں وہ ایشو اپنا سرکٹ مکمل کرلیتا ہے، شروع شروع میں ایشو پر ہونے والی گفتگو بڑی نئی اور انوکھی محسوس ہوتی ہے، لیکن جونہی تین ہفتے کا چکر پورا ہوتا ہے ، پتہ چلتا ہے کہ سوائے پرانی باتوں کو دہرانے کے کچھ نہیں ہورہااور پھر ساری بات آئی گئی ہو جاتی ہے، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی مائی کا لال شیخ رشید کی طرح ہر بار ٹی وی چینلوں پر آکر نئی نئی باتیں کرے وگرنہ تو ہمارے عمران خان بھی 40 سیکنڈ سے زیادہ تسلسل کے ساتھ اپنے منشوراور پارٹی پروگرام پر گفتگو نہیں کرسکتے اور جونہی40 سیکنڈ مکمل ہوتے ہیں نواز شریف اور آصف زرداری کو کوسنا شروع ہو جاتے ہیںاور یار لوگ چینل تبدیل کرلیتے ہیں!
آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان کے جلسے کے بعد بھی ایسا ہی میڈیا رومانس شروع ہوا تھا اور بعد میں ایسی باتیں سننے کو ملی تھیں کہ اب جب کہ عمران خان کے لئے میڈیا کا رومانس تھم گیا ہے ، اس لئے تبدیلی کے نعرے کا بے لاگ تجزیہ شروع ہو گیا ہے، کسی زمانے میں ہماری فلم انڈسٹری بھی اسی فارمولے پر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی تھی کہ کسی بھی نئی فلم کی اس وقت تک دھوم مچی رہتی تھی جب تک وہ سرکٹ کا چکر مکمل نہیں کرلیتی، لیکن جونہی یہ دائرہ مکمل ہوتا، لوگ اس فلم کے حوالے سے بوریت کا شکار ہوجاتے ماسوائے مولا جٹ اور چند دیگر ایسی فلموں کے!
ٹی وی چینلوں کو بھی تب تک اشتہارات کی بھرمار ہوتی رہتی ہے جب تک کوئی ایشو تین ہفتے کا چکر مکمل نہیں کرلیتا، ایسے میں تو عافیت بس اسی لیڈر کی ہے جو تواتر کے ساتھ ٹی وی سکرینوں پر جلوہ فگن نہیں ہوتا ، جیسے نواز شریف اور آصف علی زرداری، ان کے بجائے ان کے مشاق مقررین یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں کیونکہ ان دو پارٹیوں کا حجم اور تجربہ نئی ابھرنے والی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بڑا ہے !
یوں بھی ایک ہی وقت میں لگ بھگ چار پانچ کروڑ لوگوں کو اپنی پرفارمنس سے مطمئن کرنا آسان کام نہیں ہوتا، اس عمل میں سیاست دانوں کا نہیں اینکر پرسنوں کا بھی کڑا امتحان ہوتا ہے اور اس صورت حال نے پاکستان میں ایک اور طرح کی سیاست کو جنم دیا ہے جسے ”نیا کیا ہے؟“ کی سیاست سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کچھ نیا نہیںملتا تو ہمارے ٹی وی چینل اپنے طور پر کچھ نیا گھڑ لیتے ہیںجبکہ اخبارات میں شہ سرخیوں کے سوا کچھ نیا نہیں ہوتا!
اس لئے شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کی ٹی وی چینلوں پر بپا تحریک جب اپنا چکر مکمل کرلے گی تو اس حوالے سے جاری شور تھمے گااور پھر اصل تجزیے کا آغاز ہوگا، تب تک اسی پر اکتفا کیجئے کہ علامہ صاحب کی گڈی چڑھی ہوئی ہے!

مزید :

کالم -