قول و فعل کے ٹوٹتے گمان
یوں تو وقت بے وقت کی بریکنگ نیوز نے ہمارا خون خشک کر رکھا ہے، لیکن رگوں میں دوڑنے بھاگنے کے لئے جو تھوڑا بہت خون ہم نے بچا رکھا ہے ،گزشتہ روز تو وہ بھی خشک ہونے سے بال بال بچا۔ ہم نے اس گمان میں گزشتہ چھ ماہ گزارے کہ مسلم لیگ(ن) معیشت کو سب سے بہتر سمجھتی ہے۔ دو بار مرکزی حکومت اور بار بار پنجاب میں حکمران رہ چکی ہے، سو معیشت کیسی بھی بری ہے، نواز شریف حکومت کشکول توڑنے اور معیشت کو پھر سے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ نواز شریف کے قدرے بہتر انداز سے اگر کچھ یہ گمان ڈگمگایا تو اسحاق ڈار کی پارہ صفت وضاحتوں نے یہ بھرم تھامے رکھا، لیکن گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں معیشت پر بریفنگ کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے عجیب حیرت کا اظہار کیا۔ پاکستان کو کیوں بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے؟بے خبری کی انتہا تھی یا تجاہل ِ عارفانہ کی معراج! ہم سمجھ نہ سکے، جن کے پاس اس مرض کا علاج یقینی ہونے کا گمان پال رکھا تھا، انہوں نے تو اپنی خالی جیبیں الٹا کر دکھا دیں، بلکہ ”دوا دارو“ کے زیادہ جھنجھٹ میں جائے بغیر اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ پاکستان کو ”مرضِ آئی ایم ایف“ سے نجات عطا فرمائے۔ رحمت خداوندی کو جوش دلانے کے لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اغیار پر رحمت کا خصوصی حوالہ بھی دے ڈالا۔ بھارت آئی ایم ایف کے پروگرام سے چھٹکارا پا چکا ہے، ہم یہ چھٹکارا کیوں نہیں پا سکتے؟ ہمارا تو خیال تھا کہ ان کے پاس معیشت کو سنبھالنے کا کوئی تبر بہدف نسخہ ضرور ہو گا۔ نسخہ تو کیا تجویز کرتے، جھٹ سے پاکستان کا کیس اللہ میاں کے سپرد کر دیا۔
یہ سن کر کئی الٹے سیدھا محاورے اور لطیفے یاد آئے....” جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگے“.... غالب کے محبوب نے بھی کچھ ایسا ہی معصوم سا سوال کر دیا تھا۔ ہاں ،مگر غالب کون؟ بے چارے غالب جگہ جگہ سینہ کوبی کرتے دہائی دیتے رہے....” کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا“؟.... بجلی، گیس اور تیل کے دام دھڑا دھڑ بڑھنے اور مہنگائی کی ہر گلی محلے میں آوارگی کے باوجود ہمارا گمان یہی تھا کہ نواز شریف حکومت کے پاﺅں میں ابتدائے حکومت کی مہندی لگی ہے، آنے جانے کے قابل نہیں ہے، چند مہینوں کی دھوپ میں یہ مہندی خشک ہو جائے گی، تو حکومت لمبے لمبے ڈگ بھرتی، معاشی بحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گی، لیکن حکومت شاید اتنی ہی کنفیوز ہے، جتنے عوام.... ایسے میں بچا کھچا خون خشک نہ ہو تو کیا ہو، بلکہ گزشتہ دو روز میں اس خشک خون پر پرویز مشرف کے مبینہ دردِ دل اور ممکنہ محفوظ راستے کے غلغلے اور الطاف حسین کی ایک نئے صوبے کی فرمائش نے بھی حق جتلا دیا ہے۔
ایک نواز شریف سے ہی گلہ کیا، جنہوں نے90روز میں کرپشن ختم کرنے اور تبدیلی لانے کا عزم کیا تھا۔ موقع ملتے ہی انہوں نے بھی اگر مگر کا ایک پورا دیوان مرتب کر دیا ہے۔ دو ہفتے قبل مہنگائی کے خلاف ریلی میں عمران خان نے حکومت کو چیلنج کیا کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کو صوبائی حکومت کے حوالے کر دیں اور پھر دیکھیں، لائن لاسز، بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی جیسے موذی امراض کیسے چٹکی بجاتے ٹھیک ہوتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے موقع غنیمت جانتے ہوئے حامی بھر لی۔ ابھی حکومت کی ”حامی“ بصورت تحریری رضا مندی تحریر ہو رہی تھی کہ پرویز خٹک، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے عمران خان کی بات کی آن یوں ر کھی کہ ہمیں صرف میٹر ریڈر کا کردار نہیں چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے شرائط کی درجن بھر شقیں گنوا دیں کہ اگر منظور ہو تو جی بسم اللہ، ورنہ حکومت میٹر ریڈنگ بھی خود کر لے اور پیپکو کے نقصانات کی جمع تفریق کا حساب بھی اپنے پاس رکھے۔
مضحکہ خیز شرائط سے قطع نظر اگر پیپکو کا کنٹرول صوبائی حکومت لے کر بجلی کے ڈسٹری بیوشن نظام کو کامیاب کر لیتی تو قدرتی طور پر بجلی کی پیداوار اور ٹرانسمیشن کے لئے بھی اپنا حق جتا سکتی تھی، لیکن ریلی کے جذباتی نعرے کا کفارہ اونٹ کے گلے میں درجن بھر شرائط کی بلیاں باندھ کر ادا کیا گیا،.... جان بچی سو لاکھوں پائے“....سوجھ بوجھ کے دعویدار وقت آنے پر جس خوبصورتی اور مہارت سے انجان بنتے ہیں، اس کا مظاہرہ حالیہ دنوں میں دیگر کئی معاملات میں بھی اسی طرح جاری رہا ہے۔ بات بے بات آمریت اور جمہوریت کے تقابل اور اختیارات عوام تک پہنچانے کے دعویدار سیاست دان اپنی اپنی صوبائی حکومتوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے ذریعے جس ڈھٹائی سے یہ حق عوام کو نہ دینے پر مصر ہیں، خون خشک ہوئے بغیر یا خون کھولے بغیر صرفِ نظر کرنا مشکل ہے۔ پانچ پانچ سال تک حکومت میں رہنے کے باوجود سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) عدالت کی تمام تر کوششوں اور فہمائش کے باوجود بضد ہیں کہ حلقہ بندیاں سدراہ ہیں! اگر حلقہ بندیوں جیسا روٹین کا انتظامی کام پانچ سال میں نہیں ہو سکا تو امن و امان، فرقہ واریت، روزگار اور معاشی سدھار جیسے مشکل کام بھلا کیا ہوں گے....؟
ریلی میں پیسکو کو سیدھا کر دینے کے دعوے کی طرح شاید بلا سوچے سمجھے اسحاق ڈار نے بھی ایک نعرہ بلند کر رکھا ہے۔ ڈالر کو107روپے کی شرح سے پرانی شرح، یعنی98روپے پر لانے کا کارنامہ، پرویز اشرف لوڈشیڈنگ کا لفظ ڈکشنری سے خارج کرنے کی کوشش میں خود ہی خارجِ دفتر ہو گئے۔ وزیر خزانہ شاید سچ ہی کہتے ہوں، لیکن علم معاشیات کی الف ب کچھ اور ہی کہتی ہے،.... جس ملک کا حکومتی زرمبادلہ صرف تین ہفتے کی درآمدات کے لئے ہو، یعنی ساڑھے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو، جہاں ملکی بچت سرمایہ کاری ،بقول وزیر خزانہ12.5فیصد ہو۔ انرجی بحران ہو، طالبان سے مذاکرات، ٹاک شوز کی ریٹنگ کے کام تو آئیں، پیش رفت کی طرف نہ جا سکیں، وہاں زرمبادلہ کی شرح 105روپے ہی رہ جائے تو غنیمت ہے، لیکن عام فہم اکثر اوقات کمیاب ہوتی ہے۔ معاشی تبدیلی خاموش محنت اور وژن سے نمو پاتی ہے۔ نعرے اور دعوے کی تپش سے تبدیلی مرجھا تو سکتی ہے، نمو کیا پائے گی۔
ہمیں مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے چاند ستارے زمین پر لانے کی توقع ہے، نہ گمان۔ توقع ہے تو صرف اتنی کہ وہ جن وعدوں اور مہارت کی ملکیت کا دعویٰ کر کے حکومت میں آتی ہیں، اس کا ایک چوتھائی بھی عمل درآمدہو جائے تو عنایت ہو گی، لیکن فی الحال جو راگ بھی سننے کو ملتا ہے، لے اور تال سے محروم ہے۔ خون مزید خشک نہ ہو تو کیا ہو!