5جنوذوالفقار علی بھٹو : عوام کے قائد (1)
ری ذوالفقارعلی بھٹو کی پےدائش کا دن ہے۔ راجپوتوں کی اےک گوتھ "بھٹو"سے تعلق رکھنے والے کے دادا غلام مرتضٰی بھٹو کے خلاف انگرےز دور مےں مقدمے قائم کئے گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو سندھ کی سےاست مےں بہت متحرک اور فعال تھے اور بڑا عرصہ حکمران رہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشےد بےگم کا جاگےردارانہ پس منظر نہےں تھا۔ اسی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے غرےبوں سے محبت کرنا سےکھا کےونکہ انکی والدہ اکثر انہےں غرےبوں اور مفلسوں کی تکلےفوں سے آگا ہ کرتی رہتی تھی ۔چار سال کی عمر مےں دےنی تعلےم کے لےے مسجد بھےجا گےا تو اعلی تعلےم کے لےے کےتھڈرل ہائی سکول سے لےکر اکسفوڈ ےونےورسٹی تک سفر کےا۔ 1951مےںنصرت بھٹو کے ساتھ شادی ہوئی اور 1953ءمےں لندن سے پاکستان واپس آکر عملی زندگی شروع کر دی ۔ پہلی مرتبہ 29سال کی عمر مےں اقوام متحدہ جانے والے 12رکنی وفد مےں شامل ہوئے اور صدر سکندر مرزا کی کابےنہ مےں وفاقی وزےر بن گئے اور 1963مےں وزےر خاجہ بن گئے ۔
آئےے انکی زندگی کے مختصراً حالات کا جائزہ لےں۔
٭22ستمبر 1965ءکی جنگ کے دوران اور بعد مےں سلامتی کونسل سے اےک تارےخ ساز خطاب کےا۔
٭10جنوری 1966ءمےں معاہدہ تاشقند سے اختلاف کا اعلان کےا۔
٭10جون 1966ءمےں اےوب کابےنہ سے استعفٰی دے دےا۔
٭لاہور مےں بھٹو کا تارےخی استقبال ، 21جون 1966ء
٭30نومبر 1967ءمےں پاکستان پےپلز پارٹی کے تاسےسی اجلاس کا انعقاد کےا۔
٭13نومبر 1968ءمےں کو ڈی پی آر کے تحت گرفتار کر لےا گےا۔
٭7دسمبر 1970ءمےں آپ نے عام انتخابات مےں پانچ حلقوں سے کامےابی حاصل کی ۔
٭بڑی صنعتےں قومی تحوےل مےں لے لی گئی ، 3جنوری 1972ء۔
٭19مارچ 1972ءکو بےمہ زندگی قومی تحوےل مےں لے لےا۔
٭زرعی اصلاحات۔ ےکم مارچ 1973ئ۔
٭17اپرےل 1972ءکو عبوری آئےن کی منظوری دی۔
٭اپرےل 1972ءکو ملک سے مارشل لاءاُٹھا لےا۔
٭2جولائی 1972ءمےں شملہ معاہدہ کےا۔
٭20نومبر کو پہلے اےٹمی ری اےکٹر کا افتتاح کےا۔
٭22دسمبر 1972ءمےں پاکستان کے مقبوضہ علاقے بھارت سے واگذار کرائے۔
٭12اپرےل 1973ء.... پاکستان کے متفقہ آئےن کا اعلان۔
٭28جولائی 1977ء۔۔ شناختی کارڈ کا اجرائ۔
٭14اگست 1973ءمےں نےا آئےن نافذ کےا اور منتخب وزےراعظم بنے ۔
٭28اگست 1973ءمےں بھارت سے جنگی قےدےوں کی واپسی کا معاہد ہ کےا۔
٭2جنوری 1974ءمےں بنگلہ دےش کو تسلےم کر لےا۔
٭22فروری 1974ءمےں آپ کو اسلامی سربراہی کانفرنس کا چےئرمےن بناےا گےا۔ ےہ کانفرنس لاہور مےں منعقد ہوئی تھی ۔
٭7ستمبر 1974ءمےں قادنےوں کو اقلےت قرار دے دےا۔
٭16اگست 1975ء۔۔۔۔ بنگلہ دےش کی نئی حکومت کو تسلےم کرلےا۔
٭26فروری 1976ءمےں بےن الاقوامی انرجی کمےشن سے فرانس سے پلانٹ حاصل کرنے کی اجازت لی ۔
٭25اکتوبر 1976ءمےں بھٹو کو تےسری دنےا کے 77ممالک نے انکی فراست کا ےہ تحفہ دےا کہ پاکستان تےسری دنےاکا چےئرمےن بنا۔
٭ مارچ 1976ءمےں فرانس سے نےوکلےئر ری اےکٹر پراسسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط کےے۔
٭5جولائی 1977ءکو بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل ضےاءالحق نے ملک مےں مارشل لاءنافذ کر دےا ۔
٭4اپرےل 1977ء۔۔۔۔۔ کو لاڑگانہ ، گڑھی خدا بخش ، قبرستان مےں سپرد خاک کر دےا گےا۔
ذوالفقار علی بھٹواےک ایسا عظیم شخص جس نے نہ صر ف پاکستان کے لوگوں کو شعور دیاعزت دی سیاسی سوچ دی بلکہ 70 کی دہائی میں مسلمان ملکوں میں بھی شعور پیدا کیااور استحصالی طبقو ںکیلئے آوازاٹھائی ۔1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور کرایا ۔جو آج بھی پاکستان کی سرپرستی کی واحدضمانت ہے ۔قومی مالیتی کمیشن بنایاگیا ۔مشترکہ مفادات کی کونسل تشکیل کی گئی ۔
بہترین ڈپلومیسی کرکے 90 ہزارقیدی رہاکرائے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد فوج demoralise ہو چکی تھی جس کو نہ صرف ختم کیاگیا بلکہ حوصلہ اورنئی زندگی عطاکی اورفوج کو ایک مرتبہ پھر دنیاکی صف اول کی فوج بنادیا۔طلبہ کو یونین سازی کی اجازت دی جس کی وجہ سے بڑے لیڈر پیدا ہوئے اور آج بھی اسمبلیوں میںایسے لوگ موجود ہیںجو صرف اس وجہ سے لیڈر بنے کہ بھٹو کے دور میں کالج اور یونیورسٹیوں میں الیکشن ہو ا کرتا تھا ۔
زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیردارو ںپر ضر ب لگائی ۔ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے پہلے ٹرےڈ یونین بنانے کی اجاز ت دی ۔ملک میں پہلی مرتبہ سوشل سکیورٹی کا نظام نافذکیا گیا ۔غریبوں کیلئے پانچ مرلہ سکیم بنائی گئی۔آج بھی شہر شہر نگر نگر بھٹو کالونیاں قائم ہیں اور رہتی دنیا تک بھٹو کا نام ایک غریب محسن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھاجائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ بھٹو شہید کے بعد ہر لیڈر نے غریبوں کو زمینیںدینے کی سیاست کی ۔کسی نے دس مرلہ دینے کا اعلان کیا تو کسی نے سات مرلہ کو متعارف کرایا ۔تمام سیاست کا محور غریبوں کو زمینیںدینے اور مالک بناے میں مرتکز رہا ہے ۔میرے نقطہ نظر سے بھٹو کے بعد جس نے بھی لوگوں کو زمینیںدی ہیںاور گھر کامالک بنایا ہے وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کی طرف سے غریبوں کو تحفہ ہے ۔کیونکہ اگر بھٹو نے یہ سوچ پیدا نہ کی ہوتی تو کوئی ایسانہ کرتا ۔خواتین کو تمام شعبوں میں نمائندگی دی گئی ۔ اسمبلیوں میں نشستیں تک خواتین کیلئے مخصوص کی گئیں ۔(جاری ہے)
ایٹمی پروگرام کے خالق کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کانام تاریخ کاحصہ بن چکاہے ۔لو گ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی خاطر اور پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے بھٹو پھانسی چڑھ گیا ۔تمام دنیانے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کی ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان لانے کاسہر ا بھی بھٹوکے سر ہے۔کہوٹہ لیبارٹری بھی بھٹو کی مرہون منت ہے۔فرانس سے ری پروسیسسنگ پلانٹ لیا لیکن دوسرے طریقے استعمال کرکے پاکستان کو ایٹم طاقت بنالیا ۔آج پاکستان جس فخر اور عزت کے ساتھ ایٹمی طاقت ہے ۔اس کا کریڈٹ صرف اور صرف بھٹو شہید کو جاتاہے جس نے اپنی قربانی دے کرملک کو مضبوط بنادیا ۔
اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کر کے بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیںڈال دیں اور دنیا میں تیسری دنیا کا نیا تصور دیا ۔چھوٹے ممالک بھی اپنے آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ۔”روٹی کپڑا ،مکان اور عزت سب کیلئے “بھٹو کے ان کارناموںکو کوئی نہیں بھلا سکتا۔
22 ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل میں ذوالفقار علی بھٹو کا خطاب تارےخ مےں ہمےشہ ےاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے خطاب کے دوران کہا کہ
”ہمیں ایک بڑے عفریت کا سامناہے ۔ایک ایسے جارح ملک کا جو بار بار جارحیت کا ارتکاب کرتا رہا ہے ۔ہم نے آزادی کے بعد سے اب تک 17 بھارت کی جارحانہ کاروائیوں کا سامنا کیا ہے ۔اس نے جونا گڑھ پر قبضہ کیا ،ماتا اور مانگرول کو طاقت کے ذریعے ہڑپ کر لیا ۔اس نے حیدر آباد پر فوج کشی کر کے اس ریاست کو ہتھیا لیا اور یہ گوا پر فوجی طاقت سے غاصبانہ قبضہ کر چکا ہے اس نے اپنے جارحانہ عزائم کے ذرےعے اےسے حالات پےدا کےے جن مےں چےن اور بھارت کی فوجوں مےں تصادم ہو گےا اور اب بھارت نے پاکستان پر حملہ کےا ہے آپ جانتے ہےں بھارتی لےڈر پاکستان کو اپنا اولےن دشمن قرار دےتے ہےں۔
جناب والا! پاکستان اےک اےسا ملک ہے جسے بھارت کی ہر پالےسی کا پہلا اور بنےادی ہدف سمجھنا چاہےے۔ 17سال سے ہم دےکھ رہے ہےں اور اس بات کو بخوبی سمجھتے ہےں کہ بھارت پاکستان کو ختم کرنے کا تہےہ کر چکا ہے۔ آپ اس بات سے با خبر ہوں گے کہ پاکستان کے قےام کا مقصد ہی ےہ تھا کہ برصغےر کی دو قوموں ہندو اور مسلمان کے درمےان آئے دن کے تنازعات اور بد امنی کو ختم کےا جائے ۔ سات سوسال تک برصغےر مےں ان دونوں قوموں کی کشمکش جاری رہی اور ہم ہندو قوم کے ساتھ جو اکثرےت مےں تھی امن کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے رہے لےکن ےہ کوشش کامےاب نہ ہوئی اور بالآخر ہم اس نتےجے پر پہنچے کہ اس دائمی کشمکش کا حل اور برصغےر مےں قےام امن کا راستہ اس کے سوا اور کچھ نہےں ہو سکتا کہ ہم اپنے لےے اےک لاگ وطن حاصل کر لےں خواہ وہ رقبے اور وسائل مےں چھوٹا ہو لےکن اس قابل ہو کہ امن کے ساتھ زندہ رہ سکےں اور اےک بڑے پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھ سکےں۔ برصغےر مےں قےام امن کی ےہ خواہش ہی قےام پاکستان کا بنےادی اصول اور محرک تھی ۔ےہ کوئی نئی بات نہ تھی ۔ ےورپ مےں بھی کئی اقوام کو اےک دوسرے کے ساتھ دوستانہ اور قرےبی تعلقات قائم رکھنے کے لےے اس مےں بھی کئی اقوام کو اےک دوسرے کے ساتھ دوستانہ اور قرےبی تعلقات قائم رکھنے کے لےے اس قسم کی تقسےم اور علےحدگی اختےار کی ہمےں ےقےن تھا مسلمانوں کا علےحدہ وطن پاکستان قائم ہوجانے کے بعد برصغےر مےں امن قائم ہو جائے گا اور پاکستان اور بھارت کے عوام دوستی کے ساتھ اچھے ہمساےوں کی طرح زندگی بسر کر سکےں گے۔ انہوں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
”مےں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ےہ قدرت کا قانون ہے کہ افرےقہ اور اےشےا ءکے لوگ بھوکے اور مفلوک الحال رہےں۔ کےا ےہ ہمارا مقدر ہو چکاہے کہ ہم ہمےشہ بدحال اور پسماندہ رہے۔ ہرگز نہےں ، ہم پسماندگی اور افلاس کی ان دےواروں کو توڑ دےنا چاہتے ہےں ہم اپنے عوام کے لےے اےک بہتر مستقبل تعمےر کرنا چاہتے ہےں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہماری آئندہ نسلےں خوشحال ، اطمےنان اور عزت کی زندگی بسر کرےں۔ افرےقہ اور اےشےا کے لےڈر آج اسی جدوجہد مےں مصروف ہےں اور وہ پسماندگی اور افلاس کو ختم کر دےنا چاہتے ہےں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لےے اپنی تمام قوتوں اور صلاحےتوں کو مفےد اور تعمےری کاموں استعمال کرنا چاہتے ہےں۔
ہم نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لےے اےک مرتبہ نہےں کئی بار کوشش کی ہےں ۔ کتنی ہی بار ہم نے اس معاملے مےں پہل کی ۔ بھارتی نمائندہ ےہاں موجود ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا۔ ےہ تارےخی حقائق جنہےں جھٹلاےا نہےں جاسکتا۔ ےہ بات اےک مرتبہ نہیںبار ہا ثابت ہو چکی ہے کہ ہم بھارت سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور امن سے بھی رہنا چاہتے ہےں لےکن ےہ دوستی اور امن آبرو مندانہ بنےادوں پر ہونا چاہےے اور بھارت کو بھی اعتراف کر لےنا چاہےے کہ ےہ امن اور دوستی ان وعدوں کی بنےاد ہو سکتی ہے جو خود بھارت نے پاکستان ، کشمےری عوام اور پوری دنےا کے ساتھ کر رکھے ہےں۔ انہوں نے مزید کہا کہ
”بالآخر حق و انصاف کی فتح ہو گئی اور ہمارا ےہ اےمان ہے کہ جموں و کشمےر کے عوام کو بھی ان کا حق مل کر رہے گا۔ ان 50لاکھ افراد کو ےہ حق خودارادےت جس کا نعرہ آج پورے افرےقہ اور ےشےا مےں گونج رہا ہے ساری دنےا کے لےے تسلےم کےا جائے اور جموں و کشمےر کے لوگ ہی اس سے محروم رہےں۔ کےا وہ بھارتی معاشرے کے اصولوں کے مطابق اچھوت ہےں؟ آخر انہوں نے کےا قصو ر کےا ہے کہ ان کو حق خود ارادےت نہ دےا جائے اور انہےں اپنے مستقبل کا فےصلہ کرنے سے محروم رکھا جائے۔ ©"
وہ اےک اےسے لےڈر تھے جو قائد عوام تھے۔ جن کے پاس غربت کے شکنجے توڑ کر عوام کو آزاد کرانے کا ویژن تھا اور جو قوم کی اےک اےسے نئے عشرے مےں رہنمائی کرنے کی صلاحےت رکھتے تھے جو طاقت و قوت ، شان و شوکت اور کامرانےوں سے عبارت۔
وہ ان لوگوں مےں سے نہےں تھے جو افراد کی کامےابی اور ترقی کو قسمت ےا مقدر کا کھےل سمجھتے ہوں۔ بھٹو اس بات پر ےقےن رکھتے تھے کہ ہر شخص اپنا مستقبل خود بناتا ہے اور اپنی تقدےر خود لکھتا ہے ۔ انہوں نے اپنی قسمت کا فےصلہ خود کےا، اپنے لےے اےک منزل کا تعےن کےا۔ ان کہ ذہےن مےں اپنی قوم اور اپنی دھرتی کی خدمت کی اےک واضح تصوےر تھی ۔ انہوں نے اےسا ہی کےا۔ ان کا اےمان تھا کہ کسی شخص کو نا انصافی اور ظلم کے سامنے ہتھےارنہےں ڈالنے چاہئےں۔ اپنے ان معتقدات اور نظرےات کے لےے انہوں نے اپنی جان قربان کر دی ۔ وہ قائد عوام تھے جو عوام کے لےے جئے اور عوام کے لےے مرے۔ نوجوانوں کے لےے قائد کی زندگی ےہ سبق دےتی ہے کہ اپنے لےے منزل کا تعےن کرو اور قسمت کو کوسنا چھوڑ دو۔ کامےابی ان کے قدم چومتی ہے جو چند اصولوں پر چلتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہےں۔
ہم اےسے زمانے مےں جی رہے ہےں جب موقع پرستی اور مصلحت کوشی نے پختگی کردار کی جگہ لے لی ہے۔ اس عہد مےں جب حکمران قانون شکتنی کر رہے ہوں، ان کی ےادشدت سے آتی ہے، کےونک ہوہ قانون کی حکمرانی پر ےقےن رکھتے تھے۔ انہوں نے پاکستان کو اےک متفقہ جمہوری اور اسلامی آئےن دےا، جس مےں صوبائی خودمختاری اور انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی تھی ۔ ےہ پہلا آئےن تھا جو پاکستانی عوام کے انسانی حقوق کو تسلےم کرتا تھا۔ اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق بڑی اہمےت اختےار کر چکے ہےں۔ ان کے بغےر انسانےت کا وقار داﺅ پر لگ جاتا ہے اور معاشرے کی روح تباہ ہو جاتی ہے۔
آج پاکستان مےں اےک اےسی حکومت ہے جو انتخابات مےں کامےاب ہو کر آئی ہے۔ جمہورےت بھٹو کا خواب تھا۔ پاکستان کی تارےخ مےںپہلی مرتبہ 2008کی اسمبلےوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کےں اور اقتدار اےک پارٹی کی حکومت سے دوسرے پارٹی کو ٹرانسفر کےا گےا۔ بد قسمتی سے پےپلز پارٹی کی قےادت کرنے والوں نے ملک ، پارٹی اور عوام کے ساتھ انصاف نہےں کےا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قومی پارٹی کو اےک صوبے تک کر دےا گےا۔ بھٹو کی سوچ اور فلسفہ تو کبھی ختم نہےں ہو گا کےونکہ اب ےہ ہر پارٹی کے منشور کا حصہ بن چکا ہے پےپلز پارٹی کو نچلے طبقے کی پارٹی کے طور پر بناےا گےا تھا ۔ نچلے طبقے کو بے نظےر بھٹو کے بعد پارٹی سے محروم کر کے بھٹو کی فکر، سوچ اور فلسفے سے انحراف کےا گےا۔ خدا کرے کہ بھٹو کی سوچ اور جذبہ کبھی ختم نہ ہو کےونکہ ےہ عدلےہ کی آزادی کا نام ہے ، ملک کی ترقی کی ضمانت ہے۔ قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ معاشی ترقی و جمہورےت کی علامت ہے۔