نئی جرنیلی شاہراہ

نئی جرنیلی شاہراہ
 نئی جرنیلی شاہراہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سال 2015 کا اختتام انتہائی تاریخ ساز تھا کیونکہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے 31 دسمبر کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کا افتتاح کیا۔ اگر اسے پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین منصوبہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس موقع پر سیاسی یکجہتی اور اتفاق کا خوش کن مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا کیونکہ افتتاحی تقریب میں حکمران جماعت کے علاوہ تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین یا ان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس میں ایک نمایاں استثنا کچھ تحفظات کے حوالہ سے پاکستان تحریک انصاف کا رہا۔ اس پراجیکٹ کے ابتدائی مراحل میں 81 کلو میٹر کا ژوب سے کوٹ مغل (N-50) اور 126 کلومیٹر کا قلعہ سیف اللہ سے واگم (N-70) سیکشنز پر عالمی معیار کے انفراسٹرکچر کے مطابق تعمیر کا کام شروع ہوگا۔اس کے بعد کے مراحل میں 194 کلومیٹر کا گوادر سے خوشاب سیکشن ، 454 کلومیٹر کا خوشاب۔پنجگور۔باسمہ سیکشن اور 243 کلومیٹر کا

خضدار۔وانگوہل۔شہدادکوٹ سیکشن مکمل کئے جائیں گے۔ کیا پاکستانی عوام نے اس سے پہلے کوٹ مغل ، واگم ، باسمہ، وانگو ہل یا بلوچستان والے خوشاب کے نام سنے تھے؟ یقیناًنہیں کیونکہ یہ کبھی قومی دھارے میں شامل رہے ہی نہیں۔


اب ان دور دراز پسماندہ علاقوں سے وہ جدید ترین موٹر وے گذرے گی جو عوامی جمہوریہ چین کو گوادر کی عظیم بندرگاہ سے ملائے گی۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی وجہ سے بلوچستان میں کھربوں روپے کے نئے منصوبے بھی شروع ہوں گے جس کی وجہ سے پاکستان کا یہ سب سے پسماندہ صوبہ ترقی یافتہ بن جائے گا اور اس سے احساسِ محرومی کی سیاست کرنے والے قومی بصیرت سے محروم افراد کی سیاست بھی زمین میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گی۔خیر،میں اسے اکیسویں صدی کی جرنیلی شاہراہ سمجھتا ہوں کیونکہ میاں نواز شریف نے بھی شیر شاہ سوری کی طرح ایک ایسا تاریخی پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کا اس سے پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔ یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ پہلی جرنیلی شاہراہ شیر شاہ سوری نے پانچ سو سال قبل بنائی تھی جس کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند کا شمالی حصہ ترقی کر گیا۔ برصغیر کا مغربی حصہ جو اب پاکستان کا مغربی علاقہ ہے، یہاں نہ کبھی شاہراہیں بنیں اور نہ ہی ترقی ہو سکی۔ اس میں کچھ وجوہات تو ان علاقوں کے مشکل جغرافیائی حالات، سنگلاخ سرزمین ، آبی ذخائر کی عدم موجودگی وغیرہ ہیں لیکن اس سے بڑھ کر سب سے اہم وجہ ماضی بعید اور ماضی قریب میں بھی حکمرانوں کی طرف سے سوتیلا سلوک ہے جنہوں نے پاکستان کے مغربی نصف کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا تھا اور ترقی و خوش حالی نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں جہالت اور پسماندگی کا راج رہا۔


تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے مغربی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کا ویژن وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پیش کیا ہے جس کے تحت سال کے آخری دن چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کا کام شروع ہو گیا ہے۔اگر آپ پاکستان کا نقشہ دیکھیں اور اس میں سڑکوں یا شاہراہوں کے نظام کا بغور جائزہ لیں تو سب سے پہلی بات آپ یہ نوٹ کریں گے کہ زیادہ تر شاہراہیں ملک کے مشرقی نصف میں ہیں اور زیادہ تر بڑے شہر بھی اس مشرقی نصف میں ہونے کی وجہ سے صنعت و حرفت، کاروبار، زراعت اور تجارت بھی زیادہ تر انہی علاقوں میں ہے۔ گویا صنعتی اور تجارتی اعتبار سے پاکستان کو آسانی سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مشرقی کے مقابلہ میں مغربی نصف میں سڑکیں ، شاہراہیں اور آمدورفت کے ذرائع تقریباً مفقود ہیں جن کی وجہ سے وہاں نہ ترقی ہوئی اور نہ ہی بڑے شہر آباد ہو سکے۔ ان علاقوں میں کارخانے لگے اور نہ ہی کوئی خاص معاشی انفراسٹرکچر بن سکا کیونکہ وہاں شاہراہیں نہیں ہیں۔



عظیم بادشاہ ، منصوبہ بندی کے ماہر اور بہترین منتظم شیر شاہ سوری سے پہلے ہندوستان میں ذرائع آمدورفت کے راستے ضرور تھے لیکن کوئی ایسی شاہراہ نہیں تھی جو برصغیر کے ایک کونے کو براہ راست دوسرے کونے سے ملاتی ہو۔ اس نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کا بل سے کلکتہ تک ایک نئی شاہراہ تعمیر کی تھی جس کا نام اس نے سرکاری طور پر سڑکِ اعظم رکھالیکن یہ جرنیلی سڑک کے نام سے مشہور ہوئی۔آج سے پانچ سو سال قبل یہ ایک محیر العقول کارنامہ تھاجس کی اس وقت کی دنیا میں کوئی اور نظیر نہیں ملتی۔ انگریز دور میں اسے گرینڈ ٹرنک روڈ کا نام دیا گیا جو عرف عام میں جی ٹی روڈ کہلائی۔ 2500 کلومیٹر عظیم شاہراہ نے ہندوستان میں ترقی اور خوشحالی کے نئے راستے کھول دئیے اور برصغیر کے مختلف علاقوں تک رسائی آسان ہونے کی وجہ سے یہ سلطنت کے استحکام اور اعلی انتظام کی ضامن بن گئی۔ شیر شاہ سوری کے بعد جب حکومت دوبارہ مغل حکمرانوں کے پاس آگئی تو پہلے اکبر بادشاہ اور بعد میں اورنگ زیب عالمگیر نے پورے برصغیر کو ایک عظیم سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ پانچ سو سال سے جی ٹی روڈ ہندوستان کی اقتصادی اور انتظامی شاہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی طرح اب میاں نواز شریف نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کا افتتاح کرکے پاکستان کے مغربی نصف میں اقتصادی اور انتظامی شاہ رگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اب پاکستان کے اس نصف میں جہالت اور پسماندگی کی بجائے اسی طرح اقتصادی ترقی ہو گی جیسے یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں شروع ہوئی تھی۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ دورِ جدید میں یورپ اور امریکہ کی بے مثال اقتصادی ترقی میں موٹر ویز نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ جرمنی کی ترقی آٹوبان کے بعد شروع ہوئی۔ اسی طرح برطانیہ، فرانس، جاپان ، امریکہ اور کینیڈا نے بھی موٹرویز یا بڑی ہائی ویز بنائیں اور اپنے اپنے ملک میں صنعت و حرفت اور زراعت کے علاوہ تجارتی سرگرمیوں کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔


میاں نواز شریف جب پہلی دفعہ ملک کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ملک میں موٹرویز کا ویژن پیش کیا اور اس پر عملی پیش رفت بھی شروع کردی جس کے پہلے مرحلہ میں لاہور سے اسلام آباد تک موٹروے بننی شروع ہوگئی۔ یہ میاں نواز شریف کا ساؤتھ ایشین ویژن تھا جس کے مطابق نہ صر ف پاکستان بلکہ برصغیر پاک وہند کے علاوہ جنوبی ایشیا ، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک ایک لڑی میں پروئے جاتے۔ بدقسمتی سے اس وقت ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو اپنی کوتاہ اندیشی یا مخالفت برائے مخالفت کی وجہ سے اس میں کیڑے نکالتے رہے۔ بہرحال میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں یہ موٹر وے مکمل ہوئی جسے بعد میں پشاور تک پہنچا دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کے تیسرے سب سے بڑے اور اہم صنعتی شہر فیصل آباد کو بھی ایک نئی موٹر وے کے ذریعہ اس نظام سے منسلک کر دیا گیا۔ پاکستانی عوام نے جب میاں نواز شریف کو تیسری بار ملک کا وزیر اعظم منتخب کیا تو انہوں نے اپنے ویژن کی تحت ملک میں موٹر ویز کا جال بچھانے کا کام شروع کردیا۔


فیصل آباد والی موٹر وے اب خانیوال تک مکمل کی جا رہی ہے اوریہ گوجرہ تک ہر قسم کی ٹریفک کے لئے زیر استعمال ہے۔ اسی طرح لاہور سے کراچی تک ایک اور موٹر وے کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ ایبٹ آباد اور سیالکوٹ تک دو اور نئی موٹرویز بن رہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ موٹرویز اور ہائی ویز انفراسٹرکچر کا ایک جال ہے جو ملک کے طول و عرض میں بچھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح نیا شروع کیا جانے والا ریلوے انفراسٹرکچر اور نئے صنعتی زونوں کا قیام اس کے علاوہ ہے۔میاں نواز شریف کے پہلے دو ادوار میں جب میں نے انہیں شیر شاہ سوری ثانی لکھنا شروع کیا تھا تو یہ کوئی ایسا غلط بھی نہ تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ قوم کی ان سے وابستہ توقعات پر پورا اترتے ہوئے ملک کے تمام حصوں میں اسی طرح انقلابی انفرا سٹرکچر کی تعمیر کر رہے ہیں جس طرح پانچ سو سال قبل شیر شاہ سوری نے اپنے دور میں کی تھی۔ جب یہ انفراسٹرکچر پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو پاکستان ایشین ٹائیگر بلکہ اس سے بڑھ کر عالمی ٹائیگر بننے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے پراجیکٹس کے لئے چین 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن یہ تو محض بارش کا پہلا قطرہ ہے، جب اس راہداری کے منصوبے مکمل ہوں گے تو دنیا بھر کے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے، اس کی پہلی مثال دنیا کے سامنے ہے کہ برطانیہ حویلیاں سے حسن ابدال E-35 ایکسپریس وے پر کئی ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جبکہ کئی اور یورپی ممالک بھی اب ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دلچسپی لے رہے ہیں۔ شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی میں جرنیلی سڑک بنائی تھی تو اب میاں نواز شریف بھی اکیسویں صدی میں نئی جرنیلی شاہراہ سے ترقی اور خوش حالی کی وہی بنیاد ایک بار پھر رکھ رہے ہیں۔

مزید :

کالم -