سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ختم، ایران کو عالمی تنہائی کا سامنا

سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ختم، ایران کو عالمی تنہائی کا سامنا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: آفتاب احمد خان


سعو دی عرب اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کیلئے آسٹریا نے کردار ادا کرنے کی ایک کوشش کی ہے، اس سلسلے میں آسٹروی وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ سے رابطہ کیا ہے اور ان دونوں نے کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کا یقین دلایا ہے۔ آسٹریا کی یہ کوشش اور دیگر دونوں ملکوں کے جواب مثبت ہیں لیکن ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی جلد بحالی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مختلف حوالوں سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے، سعودی شیعہ رہنما نمر النمر کو سزائے موت دیئے جانے سے ان اختلافات میں اتنی شدت پیدا ہوگئی کہ ایک دو دن میں ہی فریقین کے درمیان شدید بیان بازی ہوئی اور نوبت سفارتی تعلقات ختم ہونے تک پہنچ گئی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک خوشگوار مرحلہ 2007ء میں اس وقت آیا تھا جب ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ریاض کا دورہ کیا تھا اور سعودی شاہ عبداللہ ان کا استقبال کرنے خود ہوائی اڈے پر آئے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے، خادم حرمین شریفین (سعودی حکمران) عموماً کسی کا استقبال کرنے ہوائی اڈے نہیں جاتے، ان سے غیر ملکی مہمانوں کی ملاقات اکثر ان کے محل ہی میں ہوتی ہے۔ مارچ 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ایران نے شامی حکومت کی مالی اور فوجی امداد کی جس سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو شدید دھچکا لگا۔
سب سے بڑا دھچکا 4 جنوری کو لگا جب سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات توڑ لئے۔ سفارتی تعلقات توڑ لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پیدا شدہ صورتحال پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ اس صورتحال میں تہران میں سعودی سفارتخانے پر مظاہرین کا حملہ اور آتشزنی بھی شامل ہے جسے سعودی عرب نے بری طرح محسوس کیا۔ ایران ہو، پاکستان یا کوئی اور ملک، وہاں کے باشندوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ مظاہرین کا کسی بھی ملک کے سفارتی مشن پر چڑھ دوڑنا بہت ناگوار تاثر پیدا کرتا ہے اور اس سے ملکوں کے درمیان تعلقات پر برا اثر پڑتا ہے۔ جنگ سفارتی سطح پر یا الفاظ کی حد تک رہتی تو شاید ایران کے خلاف سعودی عرب کا طرزعمل اس قدر سخت نہ ہوتا مگر سفارتخانے پر حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
اب ایران بہت مشکل میں ہے، ایک طرف ایک بڑے اہم مسلمان ملک کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئیا ور دوسری طرف امریکہ اس کے میزائل پروگرام کے حوالے سے نئی پابندیاں لگانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس طرح لگتا ہے کہ ایران کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ متحدہ عرب امارات، سوڈان اور بحرین کی طرف سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے جانے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ دیگر ممالک بھی ایران کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کریں۔ یہ بات قرین قیاس نہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں کوئی ملک کوئی فوری کردار ادا کرسکے، ابھی تو یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ سعودی عرب میں ایران کے مفادات اور ایران میں سعودی عرب کے مفادات کا خیال کون سا ملک رکھے گا۔ روس کے صدر پیوٹن کی طرف سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی پیشکش مخلصانہ ہوسکتی ہے جبکہ آسٹریا بھی صورتحال بہتر بنانے کیلئے کوششیں کر رہا ہے مگر ان کی فوری کامیابی کا امکان نہیں۔
عالمی تنہائی

مزید :

تجزیہ -