سی این جی کی کلو کے بجائے لیٹر میں فروخت، پیمانوں میں گڑ بڑ، مالکان 35فیصد زیادہ کمانے لگے
لاہور(لیاقت کھرل)ایل این جی کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ ہونے پر سی این جی کی قیمتوں کے تعین میں من مانیاں ‘سی این جی مالکان ایک مافیا کی شکل اختیار کرنے لگا ہے ایک طرف وزن اور پیمائش میں گڑ بڑ تودوسری جانب کلو کی جگہ لیٹر میں تین سو گرام کم فروخت اور اس کے ساتھ اب ایل این جی جو کہ پٹرول کی نسبت کئی گنا سستی ہے سی این جی مالکان قیمتوں میں 30 سے 35 فیصد اضافہ کمانے لگے ۔وزارت پٹرولیم اور گیس کمپنی کے ماہرین نے ایل این جی کی قیمتوں میں تعین کی سخت مانیٹرنگ کرنے کی تجویز کی ہے جبکہ صارفین نے ’’پاکستان‘‘ کے سروے میں ایل این جی کی قیمتوں میں من مانیاں اور پمپ مالکان کو مافیا قرار دیدیا اس حوالے سے ’’پاکستان‘‘ کی ٹیم نے وزارت پٹرولیم اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کے ماہرین اور مختلف انجینئرز سے سی این جی کی قیمتیں ڈی ریگو لیٹ ہونے پر رائے معلوم کی تو پتہ چلا کہ سی این جی مالکان کو گزشتہ ماہ 880فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے ایل این جی فروخت کی گئی اور سال 2017کے شروع میں ایل این جی کی امپورٹ کے اخراجات میں اضافہ ہونے پر ایل این جی 944فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے جو کہ پٹرول کے مقابلے میں فیول کی صورت میں انتہائی سستی ہے اس کے باوجود سی این جی مالکان نے گزشتہ ماہ 20سے 25فیصد سی این جی مہنگی فروخت کی جبکہ قیمتیں ڈی ریگو لیٹ ہونے پر سی این جی مالکان قیمتوں کے تعین میں خود مختار ہوتے ہی من مانیوں پر اتر آئے اور سی این جی کی قیمتیں کم مقرر کرنے اور کئی گنا منافع کے باوجود دو روز قبل قیمتوں میں دو روپے بیس پیسے اضافہ کردیا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سی این جی کی خرید اور فروخت میں مالکان منافع کی شکل میں کئی گنا زائد صارفین کو ٹیکہ لگانے لگے ہیں سی این جی مالکان کو چاہئے کہ ایل این جی 800سے 825فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے قیمتوں کا تعین کرکے فروخت کریں جبکہ سی این جی مالکان نے خود مختاری ملنے کے ساتھ ہی لوٹ مار مچا دی ہے حکومت ایل این جی مالکان کو پانچ فیصد جنرل سیلز ٹیکس میں رعائت بھی دے رہی ہے اس کے باوجود قیمتوں میں دو روپے بیس پیسے فی لیٹراضافہ انتہائی ظلم ہے ۔’’پاکستان‘‘ کی ٹیم نے اس حوالے سے شہر کے مختلف سی این جی پمپوں پر سی این جی کی خرید و فروخت اور صارفین کی مشکلات اور صورت ھال کا جائزہ لینے کے لئے سروے کیا تو سی این جی مالکان کی ایک اور اجارہ داری سامنے آئی جس میں سی این جی مالکان ایل این جی فی کلو کے حساب سے فروخت کرنے کی بجائے صارفین کو سی این جی لیٹرمیں فروخت کرتے پائے گئے۔ جس میں سی این جی پمپوں پر اوزانوں پیمائش کے پیمانوں میں جہاں گڑ بڑ کا بھی انکشاف سامنے آیا تو وہاں پر کلو اور لیٹر کا جھانسا دیکر صارفین کو 286گرام فی لیٹر سی این جی کم وزن میں فروخت کی جا رہی تھی جبکہ اکثر سی این جی پمپوں پر اس بات کا بھی انکشاف سامنے آیا کہ محکمہ لیبر اور محکمہ انڈسٹری کی باہمی چپقلش کے باعث سی این جی پمپوں پر ناپ تول کے پیمانوں کی چکینگ بھی کئی ماہ سے نہیں کی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ سی این جی سٹیشنوں پر نصب بڑے بڑے سلنڈرز جن کی اوگرا اور محکمہ ہائیڈرو رکاربن ڈویلپنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کی انسپکیشن کی ذمے داری ہے کئی کئی سال گزر جانے کے باوجود سلنڈروں کی انسپکیشن محض خانہ پری کے طور پر نظر آئی جس کے باعث کم پریشر کی شکائت کے انبار بھی صارفین نے لگائے۔اس موقع پر صارفین سید معین اختر‘ احمد عقیل ‘ حق نواز‘ محمد اکبر‘ احمد سلیم ‘ فاروق احمد ‘ میاں رشید اور سلمہ بی بی سمیت شگفتہ انعم نے کہا کہ ایک طرف سی این جی پمپوں پر ناپ تول کے پیمانوں میں گڑ بڑ کرکے اور پریشر میں کمی بیشی کرکے لوٹ مار کی جا رہی ہے اب قیمتوں میں اپنی مرضی سے ہی اضافہ کرکے ایک نئی لوٹ مار شروع کردی گئی ہے اس پر حکومت صارفین کے استحصال کا نوٹس لے وگرنہ سی این جی استعمال کرنیو الے لاکھوں صارفین پٹرول یا کوئی دوسرا فیول استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے ۔