5جنوری ۔۔۔ یوم حق خود ارادیت برائے کشمیر

5جنوری ۔۔۔ یوم حق خود ارادیت برائے کشمیر
5جنوری ۔۔۔ یوم حق خود ارادیت برائے کشمیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

68برس پہلے اقوام متحدہ میں بھارت ایک مقدمہ لے کر گیا جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ مقدمہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بجائے بھارت کے ریاست پرجبری قبضے کے خلاف دونوں ممالک میں لڑی جانے والی جنگ میں بھارتی افواج کی پسپائی کے نتیجے میں جنگ بندی کے متعلق ہے۔

اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے بھارت اور پاکستان سے رضا مندی حاصل کی کہ سب سے پہلے ریاست میں جنگ بندی کی جائے، پھر فوجی انخلاء کو یقینی بنایا جائے اور کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کے لیے کہ وہ کس ملک سے الحاق چاہتے ہیں ، اقوام متحدہ کے ایڈمنسٹریٹر کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے۔ فریقین نے اس دستاویز پر دستخط کیے اور جہاں فوجیں لڑائی کے وقت ٹھہری ہوئی تھیں اسی جگہ کو سیز فائر لائن قرار دیا گیا ۔ اسی لائن کو1973کے بعد لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا ۔

سیکورٹی کونسل نے وضاحت کر دی کہ کشمیری عوام کو اپنے مادر وطن کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حق خود ارادیت دیا جائے۔اس قرار داد کو بھارت اور پاکستان دونوں کے درمیان زیر بحث لایا گیا جسے کمیشن کے ارکان پانچوں ممالک( ارجنٹینا، بیلجئیم، کولمبیا،چیکوسلواکیہ اور امریکہ) سے منظور بھی کرایا گیا۔ جنگ بندی تو اس قرارداد کے مطابق عمل میں لائی گئی لیکن فوجی انخلاء کے مرحلے پر بھارت نے منافقت سے کام لیتے ہوئے منصوبے کو ناکام بنا دیا اور یوں یہ جھگڑا ابھی تک باقی ہے۔


کشمیری 5 جنوری کے دن کو یوم حق خود ارادیت کے طور پر منا رہے ہیں جن کے ساتھ جنوبی ایشیائی مسلمان بھی اظہار یک جہتی کے طور پر شامل ہوتے ہیں۔قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا اس کے بغیر تقسیم ہند کا ایجنڈا نامکمل ہے ۔

یہ سوا کروڑ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کی بقاء اور آذادی کا معاملہ ہے ۔ یہ محض زمین کے ایک ٹکڑے کا جھگڑا نہیں جسے التوا میں ڈالا جا سکے ۔ اسے بھارتی حکمران تسلیم کر چکے ہیں جو اقوام متحدہ کی دستاویزات میں محفوظ ہے ۔

یہ جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے خلاف بربریت اور جارحیت ہے جسے وہ کبھی قبول نہیں کریں گے ۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم بھارتی قیادت کے اس موقع پر دیے گئے بیانات دہرانا چاہتے ہیں جن میں اس نے وعدہ کیا تھا کہ بہت جلد کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے گا جس کے تحت وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوں گے ۔

جنوری1949میں سلامتی کونسل کی -399ویں میٹنگ کے موقع پر بھارتی وفد کے سر بینیگال راما راؤنے بیان دیا کہ’’ میں اپنی حکومت کے ایماء پر یقین دہانی کراتا ہوں کہ میری حکومت نہ صرف کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے میں کمیشن کے ساتھ بھر پور تعاون کرے گی بلکہ اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا میں کہیں بھی قیام امن کی کوشش کی گئی وہ اس ادارے کا ساتھ دے گی ۔کیوں کہ بھارتی حکومت کو یقین ہے کہ یہ واحد عالمی ادارہ ہے جو مستقبل کی نسلوں کے لیے مستقل اور مضبوط بنیادوں پر قیام امن کی واحد امید ہے‘‘۔

راؤ نے یکم مارچ 1951کو بھی سلامتی کونسل کے سامنے یقین دہانی کرائی کہ کشمیریوں کو کسی سخت فارمولے کے تحت نہیں بلکہ ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کاموقع دیا جائے گا۔ اس سے پہلے جب بھارت نے دنیا کو دھوکہ دیتے ہوئے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار یں تو بھارتی وزیر اعظم( جو ایک شاطر اور مکار پنڈت تھا) نے کہا’’ ہم نے اعلان کر رکھا ہے کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ آخر کار اس کے لوگوں کو کرنا ہے ۔ ہمارایہ صرف کشمیریوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے ساتھ وعدہ ہے جس سے ہم انحراف کر سکتے ہیں نہ کریں گے‘‘۔

لیکن بہت جلد ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت تمام وعدے بھول گیا اور اس نے سات لاکھ فوج اور پیرا ملٹری فورسز کشمیر میں تعینات کر دیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شروع کر دی گئیں ۔ اغواء، قتل، عورتوں کی آبرو ریزی اور ماورائے قانون گرفتاریوں کے ذریعے کشمیریوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ ہندو کی اس مکاری پر دنیا حیران رہ گئی ۔کشمیریوں کی آزادی کے خواب ٹوٹنے لگے ۔ بربریت اور سفاکی کا دور شروع ہوا جو تا حال جاری ہے ۔


کشمیر دنیا کے121 خود مختار ممالک سے بلحاظ رقبہ اور117سے آبادی کے لحاظ سے بڑی ریاست ہے ۔ یہ تاریخ میں سوائے اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف اور انیسویں صدی کے وسط تک، ایک خود مختار ریاست رہی ہے ۔

اسے کسی بین الاقوامی قانون کے سہارے زیر قبضہ نہیں رکھا جا سکتا۔نہ کوئی ادارہ اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے ۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کر سکتے ہیں جن پر ایک ایسے ملک کی حکومت مسلط ہے جس کے تحت وہ کبھی نہیں رہے۔

وہ علیحدگی پسند ہیں اور نہ ہی باغی ۔ ان پر ایک حکومت جبری قابض ہے جو عالمی سطح پر کئی قوانین کو تسلیم کرتی ہے ۔عصر حاضر میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان ہنی مون چلنے سے کشمیریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ۔

دونوں ممالک کہنے کو تو جمہوری ہیں لیکن جمہور کے حقوق کشمیر میں پامال ہو رہے ہیں ۔ نئے سامراج نے اپنے پیشرو کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ 68سال ہوئے جب اقوام متحدہ نے اس مسئلہ کے حل کے لیے قراردایں منظور کی تھیں۔

کیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر متعلق نہیں ہو سکتیں ۔ کیوں کہ انہی دنوں میں اقوام متحدہ کا چارٹر بھی وجود میں آیاتھا جو ابھی تک اپنے قانونی اور آئینی وجود کے ساتھ باقی ہے ۔

اس کے بعد اسی اقوام متحدہ نے متعدد تنازعات کو حل کیا اور کئی امن منصوبوں کو مکمل کیا ۔ وقت کی گرد عالمی معاہدوں کو ختم نہیں کر سکتی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اُن کے علاقائی ثناء خوانوں و حاشیہ برداروں کو بے بس ، نہتے ، زنجیروں میں جکڑے اور خون میں لت پت کشمیریوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی اُن کو بھارتی عقوبت خانوں میں انڈین وحشی درندوں کے لرزہ خیز تشدد سے تڑپتے ، آہ وبکاہ کرنے والوں کی آواز اُن کے کانوں تک پہنچتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -