ذوالفقار علی بھٹو شہید: چند یادیں
ذوالفقا ر علی بھٹو شہید کے ساتھ میرے تعلق کا آغاز جنوری 1966ء میں تحریری تعارف سے ہوا بعد ازاں خط و کتابت کا باقاعدہ سلسلہ چل نکلا۔ اگست 1967ء میں لندن کے ڈار چیسٹر ہوٹل میں ان کے ساتھ طویل ملاقات میں پاکستان کے سیاسی حالات اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ یہ بات قریبی تعلقات کی اہم بنیاد تھی اور رفاقت کے لازوال رشتے میں ڈھل گئی۔
پہلی بار بھٹو صاحب کو دیکھنے اور قریب سے جاننے کا بھرپور موقع مجھے اگست 67ء میں ملا جب وہ اپنی بہن کی عیادت کے لئے لندن آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ بھٹو صاحب لندن کے Dorchester ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
اس ملاقات میں ایک ریٹائرڈ ائیرکموڈور بھی تھے۔ یہ وہی مشہور زمانہ راولپنڈی سازش کیس والے ائیر کموڈورتھے جو لندن میں پی آئی اے کے منیجر رہ چکے تھے اور ان دنوں ایک ٹریول ایجنسی کاکس اینڈ کنگز کے سربراہ تھے۔ میں ان سے بہت متاثر تھا میرا خیال تھا کہ وہ چونکہ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کے ساتھ جیل میں رہے ہیں تو بڑے ترقی پسند اور انقلابی ہوں گے وہ باتیں بھی بڑی متاثر کن کرتے تھے۔
میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ انہیں یہاں لندن میں پارٹی کنونیر بنالیں بھٹو صاحب نے میری بات کو خوبصورتی سے ٹالتے ہوئے کہا کہ ابھی تو پارٹی کا قیام عمل میںآنا ہے اس کے بعد لندن میں بھی دیکھیں گے۔
لاہور میں 30 نومبر 1967ء کو پیپلزپارٹی کا کنونشن ہوا، لندن میں ہمیں یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ اس کنونشن میں شریک ہونے والوں کو بڑی دھمکیاں مل رہی ہیں۔بھٹو صاحب کا مجھے خط ملا کہ میں اس کنونشن میں شرکت کروں، مگر انہوں نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ زیادہ بہتر ہے کہ میں لندن میں پارٹی کے قیام کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لئے کام کروں۔ ایوب خان اور نواب کالا باغ کے خوف کے سبب بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں نے وعدے کے باوجود پارٹی کنونشن میں شرکت نہیں کی ،مگر چاروں صوبوں میں جو نوجوان سیاسی کارکن اور دانشور شریک ہوئے وہ اس عہد کی انتہائی پڑھی لکھی باشعور اور انقلابی قیادت تھی۔
پیپلزپارٹی کا قیام بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا تاریخی واقعہ تھا۔ اس وقت ملک میں خاص طور پرمغربی پاکستان میں بے شمار سیاسی پارٹیاں تھیں، مگر ان میں سے کوئی بھی پاکستانی عوام کے حقیقی جذبوں اور ان کے مسائل کے حل کی ترجمانی نہیں کرتی تھیں۔
یہ صحیح ہے کہ اس وقت پی پی بھٹو اور بھٹو پی پی تھے ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنے گرد اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین اور ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم بھی مختصر عرصے میں بنا لی جس نے بعد میں پاکستان کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔ پیپلزپارٹی نے ابھی اپنی تنظیم سازی اور سرگرمیاں شروع ہی کی تھیں کہ ایوب حکومت کی مشینری ان پر ٹوٹ پڑی۔گرفتاریوں اور سنگین مقدمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ان کی جدوجہد جاری رہی اور آخر عوام نے انہیں اپنا وزیراعظم منتخب کرلیا۔
بھٹو صاحب کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک ایسے باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور ملی تھی کہ جس کے ہر شعبے میں تباہی و بربادی کا دور دورہ تھا۔زرمبادلہ کے ذخائر خالی تھے۔ صنعت و تجارت دگرگوں تھی۔ پاکستان کا ایک بڑا علاقہ بھارتی تحویل میں تھا۔
90 ہزار فوجی دشمن کی قید میں تھے۔ ان ہزاروں قیدیوں کے خاندانوں کا بھٹو حکومت پر بڑا سخت دباؤ تھا کہ وہ انہیں فوری طور پر واپس لائیں ،مگریہ سب کچھ اتنا آسان نہ تھا ایک طرف تو ٹوٹے پھوٹے پاکستان کی تعمیر اور دوسری طرف بھارت جیسے مکار دشمن سے مذاکرات کے ذریعہ پاکستانی سرزمین اور جنگی قیدیوں کی باعزت واپسی، مگر تاریخ میں یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب کسی سیاسی رہنما کی قائدانہ صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔
بھٹو صاحب نے سب سے پہلے اپنے عوامی جلسوں اور ذرائع ابلاغ سے دئیے جانے والے انٹرویوز میں اپنے پرجوش خطابت سے سقوط مشرقی پاکستان کے صدمے سے مایوس عوام کو حوصلہ دیا کہ وہ ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔دوسری جانب بھٹو صاحب نے اپنے دیرینہ دوست چین اور مسلم دنیا سے رابطوں میں تیزی لاناشروع کی۔
بھٹوصاحب نے پاکستان کے عوام کو سیاسی شعور دیا اور جمہوریت کی طاقت سے آشنا کیا۔ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیربنایا۔ ہمسایہ اور خطے کے ممالک سے اتحاد کے جو ثمرات آج ہمیں مل رہے ہیں یہ ذوالفقار علی بھٹو کی رکھی بنیاد ہے۔
نچلے طبقات کو بھٹو نے بااختیار بنایا۔ خواتین کو سماجی سرگرمیوں سے سیاست میں تعمیری کردار پر بھٹو نے آمادہ کیا۔ عالم اسلام سے پاکستان کے مثالی تعلقات قائم ہوئے ملک میں ثقافتی بنیاد پر ہم آہنگی نشوونما پا ررہی تھی۔ پاکستان کا وقار پوری دنیا میں ایک محنتی اور باصلاحیت قوم کے طور پر بڑھ رہا تھا۔ بھٹو صاحب کاتختہ الٹ کر یہ سب کچھ ختم کردیا گیا۔
6 جولائی 1977ء کو میری بیگم بھٹو سے ملاقات طے تھی اور میں پنڈی میں ہی موجود تھا۔ 4 جولائی کوابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک دوست نے مجھے فون پر بتایا کہ فوج نے ٹیک اوور کرلیا ہے اور بھٹو صاحب کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاہے اس وقت نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ مارشل لاء اتنا خوفناک بھی ہوسکتا ہے انہی دنوں مساوات میں ، میں نے مسلسل پانچ مضمون لکھے ، جن میں جناب بھٹو کے کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا کہ کن مشکل حالات میں انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کو سیاسی اور معاشی میدان میں ترقی دی۔