ایک مثالی ماں
ہمارے بہادرکمانڈو جرنیل پرویز مشرف واشنگٹن کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکی جنگ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار کر چکے تھے۔ اگلے ہی روز ملک میں گرفتاریوں کا سلسلہ چل نکلا۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما تو جیلوں سے نکل کر جدہ پرواز کر گئے تھے کہ ان کی مخالفت جنرل مشرف سے تھی، لیکن اب وہ سرکاری تحویل میں آ رہے تھے، جنہیں امریکہ اپنا مخالف اور افغانستان کے طالبان کا حامی تصور کرتا تھا۔ امریکی ٹی وی کی ایک نمائندہ لاہور چھاؤنی کی ایک افسر کالونی میں ایک محبوس کی والدہ سے محو کلام تھی۔
رپورٹر نے خاتون سے سوال کیا ، کیا آپ کا بیٹا اسامہ بن لادن کو جانتا ہے۔ اس وقت جب اس خاتون کے بیٹے کو اس شبہ میں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔ خاتون نے جواب دیا۔ بالکل وہ اسے نہ صرف جانتا ہے ،بلکہ وہ اس کا علاج بھی کرتا ہے۔ یہ خاتون ڈاکٹر عامر عزیز کی والدہ تھی، جس نے اپنی اولاد کو کبھی جھوٹ نہ بولنے کا سبق دیا تھا۔ ایک ہفتہ تک جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت ڈاکٹر عامر عزیز کے بارے میں کوئی اطلاع فراہم کرنے سے گریز کرتی رہی تو اہل خانہ نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر عامر عزیز کے بہنوئی ڈاکٹر ایوب میرے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک ترقی پسند وکیل کے پاس گئے جو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں اور انسانی حقوق کی بات بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر چار لاکھ روپے بطور ایڈوانس طلب کیا، میں نے انہیں کہا کہ ہم ڈاکٹر عامر عزیز کا مقدمہ لڑیں گے اور ڈٹ کر لڑیں گے۔
ہم اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری احسان وائیں کے پاس پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف یہ مقدمہ بغیر فیس کے لڑیں گے، بلکہ کاغذات کی تیاری کے لئے بھی خرچ خود ادا کریں گے۔ میر ابیٹا یاسر صدیق اظہر ان کی معاونت کرے گا۔ ہم صبح سویرے ہائی کورٹ پہنچ جاتے اور یقین کیجئے کہ کوئی سیاسی یا انسانی حقوق کا رہنما ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہ تھا۔ احسان وائیں،میں ،میرا بیٹا اور ڈاکٹر ایوب ۔
عام تصور یہ تھا کہ ڈاکٹر عامر عزیز کو امریکی ایف بی آئی یا سی آئی اے کے لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں ایک خوف کی فضا طاری تھی۔ افغانستان پر امریکی بمبار تورا بورا کی کہانی لکھ رہے تھے۔
ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سیاسی جماعتوں پر خوف طاری کیا ہوا تھا، ہمیں خود ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ حکومت، ہائی کورٹ کے سامنے ڈاکٹر عامر عزیز کی Custody سے مسلسل انکار کر رہی تھی۔ جاننے والے ہمیں خوف زدہ کر رہے تھے۔ ایک روز ایک امریکی ٹی وی کی خاتون رپورٹرز نے مجھے انٹرویو دینے کے لئے کہا۔
میں آمادہ ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس طرح میں ڈاکٹر عامر عزیز کے بارے ان بے سروپا کہانیوں اور افواہوں کو کسی حد تک دور کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں جو ملک میں پھیل رہی تھیں۔ ہمارے بعض سول دوست بھی غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ڈاکٹر عامر عزیز اسامہ بن لادن کا صرف معالج نہیں ہے،بلکہ وہ القاعدہ کا ایک رکن ہے ،جبکہ یہ بات سراسر غلط تھی۔ اسامہ کو ایک ایسے ماہر معالج کی ضرورت تھی جو اس کی کمر کی درد کا علاج کر سکے اور اس کے لئے اس کے ساتھیوں نے ڈاکٹر عامر عزیز کو چنا تھا۔ مجھے اس وقت تک اس بات کا علم نہ تھا۔ امریکی ٹی وی کی نمائندہ نے مجھے پی سی ہوٹل میں انٹرویو کیا اور مجھ سے ان تعلقات کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے نفی میں جواب دیا کہ شاید اسامہ اور عامر کے درمیان ملاقات ہی نہ ہوئی ہو۔ انٹرویو کرنے والی خاتون نے کہا کہ وہ گزرے کل عامر کی والدہ سے ملی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ عامر اسامہ کا علاج کرتا رہا ہے۔
عامر کی والدہ ان دنوں بیمار تھیں اور ویل چیئر پر تھیں۔ میں نے کہا وہ ایک بیمار خاتون ہیں۔ شاید ان کے علم میں ایسی بات کہیں اور سے آئی ہے۔ اس پر اس ٹی وی رپورٹر خاتون نے کہا بیمار؟ "She talks like a lioness" وہ اپنے بیٹے کی زندگی کی مشکلات میں بھی سچ بولنے سے گریز نہ کرتی تھیں۔
میں نے ڈاکٹر عامر عزیز کا مقدمہ اس لئے شروع کروایا تھا کہ میرے ملک کے ایک شہری کو امریکی مفادات اور امریکی شبہات پر اٹھا لیا گیا تھا اور مجھے اس وقت یقین تھا کہ وہ جنگ پاکستان کے عوام کی نہیں تھی، لیکن وہ جنگ بعد میں ہماری زمین پر اتری تو ہماری جنگ بن گئی۔پرویز مشرف نے ایک ایسی جنگ میں ہمیں دھکیلا جو ہماری نہیں تھی، لیکن مشرف کے اقتدار کی طوالت کا باعث بن سکتی تھی اور بنی، لیکن جب پاکستان کے گلی کوچے اور اس کے معصوم بچے بھی اس جنگ کی نذر ہونے لگے تو یہ ہماری جنگ بن گئی اور پھر فوج اور قوم نے یہ جنگ لڑی۔
ہمارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لئے اپنے شہریوں کی آزادی تک چھین لی۔ ملک کو لہولہان کر دیا اور آج وہ شخص ایک عبرتناک بیماری میں مبتلا ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جب سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عامر عزیز اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ کی خبر پڑھی تو مجھے وہ بہادر بہن یاد آگئی ،جس نے اپنے بچوں کو سچ بولنا سکھایا تھا۔ بڑے بڑے تیس مار خان جہاں بھیگی بلی بن جاتے ہیں، وہاں ذکیہ عزیز میری مرحومہ بہن کا بیٹا بات کرنے سے نہیں ڈرتا۔
طبیعت میں تیزی ضرور ہے، لیکن سچ بولنا ماں کی گود سے سیکھا ہے۔گزشتہ ہفتے محترمہ ذکیہ عزیز خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی یادیں زندگی بھر ساتھ رہیں گی۔ وہ پاکستان کی تمام ماؤں کے لئے ایک مثال ہیں۔