کورونا یا قیامت کی نشانیاں
امی بتاتی ہیں کے ان کے بچپن میں ان کے بڑے کہتے کہ جب قیامت آنے والی ہو گی تو لڑکے،لڑکیوں والا اور لڑکیاں لڑکوں والا لباس پہنیں گے،لڑکے کان چھدوائیں گے اور لڑکیاں، لڑکوں سے بال بنائیں گی۔مرد گھر بیٹھ کر کھائیں گے اور عورتیں باہر جا کر کمائیں گی۔بڑے بزرگوں کا لحاظ ختم ہو جائے گااور بچوں سے ڈر کر رہا جائے گاجبکہ بزرگوں کو چپ کروایا جائیگا۔یہ باتیں اس وقت کی ہیں جب کوئی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا تھا جو آج حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں۔گزشتہ دنوں فوڈ سٹریٹ کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کا اتفاق ہوا تو یوں ہی کچھ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔جب اندرون شہر میں چھ منزلہ کے گھر میں سب مشترکہ رہتے تھے کل جب ان پرانی اور مضبوط عمارتوں کودیکھا تو یاد آیاکہ ایک وقت تھا جب ان عمارتوں میں داد،دادی،تایا،تائی،چچا،چچی،سب ایک ساتھ رہتے تھے۔ ایک ایک منزل ہر ایک بھائی کے حصہ میں آئی تھی جہاں سب مل کر ایک ساتھ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔دیواروں میں دراڑ ہوتی تھی کیونکہ دلوں میں نزدیکیاں ہوتی تھیں اور ایک دوسرے کے مابین فاصلے نہیں ہوتے تھے۔
ایک منزل پر بنے جب اپنی پسند کے کھانے کی خوشبودوسری منزل پر آتی تھی تو اپنے کھانے کو بھول کر فوری چاچی کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے۔اس وقت اتفاق اور ایک دوسرے سے پیار اتنا ہوتا تھا کہ گھر چاہے چھوٹا ہو سب اس میں سما جاتے تھے۔آج حقیقت اس کے بر عکس ہے جتنے بڑے گھر ہو چکے ہیں اتنی ہی دلوں میں کدورتیں،نا چاقی،حسد بڑھ گیا ہے ہر ایک تنہا اور الگ زندگی بسر کر رہا ہے۔اسی طرح گھر کے باہر کام کاج یا دفاتر میں بھی یہی ماحول تھا اور آج ہم سب اسکے خلاف دیکھتے ہیں۔اب ہمارا سسٹم سفارشوں پر یقین رکھنے والا اور پیسے کے بل بوتے پر کام کرنے میں تبدیل ہو چکا ہے۔اچھے اور بہترین،ٹیلنٹڈ لوگوں کو آگے آنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا اور اس کے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ نالائق اور سفارشی لوگوں کی اتنی بھر مار ہے کہ ہر ادارے میں یہ پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہر محکمہ تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آپ کا دشمن آپ کا راستہ روکے تو آپ پہلے سے ہی محتاط رہتے ہو لیکن اگر آپ کا کوئی دوست ٹانگ کھینچے تو بہت زیادہ دکھ اور تکلیف ہوتی ہے۔ایسے دوستوں کو ہم غدار کا نام بھی دے سکتے ہیں کیونکہ دشمن تو کھل کر دشمنی کرتا ہے جبکہ غدار آپ کی پچھلی صفوں میں چھپ کر پر وار کرتا ہے لیکن ایک بات جو طے ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ہی آگے بڑھتا ہے اور ویسے بھی انسان غلطی کا پُتلا ہے چوٹ کھا کر ہی سنبھلتا ہے۔یہاں میں حضرت علیؓ کا قول بتا تا چلوں کہ ”جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا ستاد ہے“ لیکن آج کی نئی نسل اس قول کے خلاف لگتی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انہیں سب کچھ معلوم ہے اسی طرح اساتذہ بھی اپنا رتبہ بھول رہے ہیں اور وہ اپنے رتبے کی پرواہ کئے بغیر اپنے شاگردوں کی عزتیں پامال کرتے نظر آ رہے ہیں۔ایسے میں رشتوں کا احترام کرنا تو دور کی بات لحاظ تک ختم ہوتا جا رہا ہے۔ایک اہم بات کہ اکثر شادیوں میں سر عام رقص کی محفلیں لگتیں ہیں اب نا تو عزتوں کی پرواہ ہے اور ناہی ان کے نیلام ہونے کی۔سب کچھ سب کے سامنے ہو رہاہے جس کے باعث ایمانداری رشتوں میں رہی اور نا ہی کاروبار میں۔
ہم کس دنیامیں رہ رہے ہیں؟کس راستے پر چل رہے ہیں؟کیا ہماری زندگی کا آخری اسٹیشن کرونا ہے؟کیا تیزی سے پھیلتی کرونا وباء صرف ایک وباء ہے یا یہ واقع ہی بیماری ہے؟جو طوفان کے آنے سے پہلے ہمیں بار بار یہی پیغام دے رہی ہے کہ اے انسان اب تو سدھر جا اور واپس اسی زمانے میں چل جس کو تو چھوڑ آیا ہے۔دیکھ تیری کوئی سائنس یا ٹیکنالوجی اس وقت تیرے کام نہیں آئے گی۔موت تو بر حق ہے لیکن ایسی موت جس کو آپ کے اپنے ہاتھ لگانے اور دیکھنے سے بھی گریز کریں سے ڈر لگتا ہے۔جن انگریزوں نے ہمیں ٹیکنالوجی کی گاڑی میں بٹھایا،ہمیں اپنے مذہب رشتے اور پہچان سے اتنی دور لے آئے ہیں اور جن کا ماننا تھا کہ موت کے بعد سب بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں آج وہی لوگ کرونا سے متاثر ہونے والے شخص کے مردہ جسم سے بھی ڈرتے ہیں تو پھر ان کی سائنس کہاں گئی۔2020 ء نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ ہم چاہے جتنے مرضی مضبوط ہو جائیں ہونا تو وہی ہے جو خدا کی چاہت ہے۔حدیث قدسی ہے
اے ابن آدم!ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے،ہو گا وہی جو میری چاہت ہے،
پس اگر تو نے سپرد کر دیا اس کے جو میری چاہت ہے،تو میں بخش دوں گا تجھ کو وہ بھی جو تیری چاہت ہے
اور اگر تو نے نا فرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے
پھر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔پوری زندگی کی کہانی صرف اتنی سی ہے اگر اتنی سی بات سمجھ آجائے تو ہر مشکل آسان ہو جائے۔