دنیا کو فطرت کے قریب جانا ہوگا
کورونا وائرس نے پوری دنیا میں 178 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ ہو چکی ہے اور اس کے تقریباً آٹھ کروڑ کیس سامنے آ چکے ہیں۔ امریکہ ہو یا اٹلی سب کو لاک ڈاؤن کرنا پڑا، جس سے بہت بڑا معاشی بحران بھی پیدا ہوا۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے چار لاکھ اسی ہزار کیس سامنے آئے دس ہزار ایک سو ستر لوگ اس سے جان کی بازی ہار گئے۔ متاثر ہونے والے لوگوں کی خوفناک تعداد نے ہمیں ایک سچائی سے روشناس کرایا ہے کہ کوئی ایسا ملک نہیں جو اس طرح کے وبائی امراض کا سامنا کر سکے۔ ترقی پذیر ممالک نے اس وبا کا شکار ہونا ہی تھا مگر ترقی یافتہ ممالک کا کورونا کی لپیٹ میں آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان میں بھی ناگہانی حالات کی صورت ہیلتھ سیکٹر پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اب خطرہ بڑھ گیا ہے۔
چند دن پہلے انگلینڈ میں کورونا کے کیسز بہت تیزی سے پھیل رہے تھے۔ جب ایک مریض کے خون کا سیمپل لے کر اس پر ریسرچ کی گئی تو پتا لگا کہ اس کے اندر موجود وائرس پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نئے انفیکشن سے متعلق حکومت کے مشیروں کا کہنا ہے کہ انھیں ریسرچ کے باعث یہ نظر آرہا ہے کہ یہ نیا وائرس پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلے گا۔ اس وائرس کا پتا ستمبر میں چلا تھا اور یہ اتنا تیزی سے پھیلا کہ نومبر میں لندن میں کورونا کے مریضوں میں تقریبا ایک چوتھائی مرض کی نئی شکل کا شکار بنے اور دسمبر میں یہ تقریبا دوتہائی تک پہنچ گیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بتایا ہے کہ کورونا کا یہ نیا وائرس پچھلے کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ اپنے بیان کے دوران انہوں نے کہا: "یہ بتانا قبل از وقت ہوگا کہ یہ کتنا خطرناک ہے لیکن اب تک جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔”ایک رپورٹ کے مطابق اس وائرس میں ساخت کے حوالے سے اس نئی تبدیلی میں 17 ممکنہ نکات کی شناخت کی گئی ہے۔
کورونا وائرس نے عالمی سطح پر خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔ کورونا وبا کے عفریت نے جو حالات پیدا کیے ہیں اس سے ایک بات تو طے ہے کہ اس پر قابو پانے کے بعد، انسانی جان کی حفاظت کو پوری دنیا میں اولین ترجیح دی جائے گی۔ اب پوری دنیا کو ہیلتھ بجٹ کو ترجیح دینا ہوگی۔ ابھی تک ہم اس کا علاج دریافت نہیں کر پائے۔ خدانحواستہ اگر اسی دوران ایک اور مہلک وائرس پھوٹ پڑے تو دنیا کا کیا حال ہوگا۔ ان حالات میں دنیا ایک ساتھ دو وائرس کا سامنا نہ کر پائے گی۔ ایسا سوچنا کہ ایسی وبا دوبارہ نہیں آئے گی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ قدرتی آفات کو روکنا انسان کے بس کی بات نہیں ہاں مگر احتیاطی تدابیر اختیار اور ادویات بنائی جا سکتی ہیں۔ پوری دنیا کو چاہیے کہ آنے والے چند سال میڈیکل ریسرچ اور ویکسینیشن پر بھر پور کام کرے۔ آج تک جتنے بھی وبائی امراض پھیلے ان میں اکثر حیوانات کے باعث پھیلے۔ چیچک، ملیریا، ہسپانوی فلْو اور اب کورونا سب کا تعلق جانوروں سے تھا۔
اب مستقبل میں انسانوں کی صحت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی نگہداشت بھی موثر بنانا ہوگی۔ صحت اور صفائی کے حوالے سے پہلے زیادہ چوکنا رہنا ہوگا۔ جسم کی صفائی،گھر کی صفائی، محلے کی صفائی، شہر کی صفائی اور ملک کی صفائی سب کا مشترکہ مفاد بن چکا ہے۔ کورونا کے بعد دنیا ایک نئی شکل میں سامنے آرہی ہے انسانوں کے باہمی میل جول میں اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ بیماریاں ایک دوسرے کو نہ لگیں۔ احتیاطی تدابیر اور ادویات پر فوکس کرنا ہوگا۔ زندگی فطرت کے مطابق گزارنا ہوگی۔ کیونکہ ہم نے دیکھ لیا کہ غیر فطری طریقے سے زندگی گزارنے کے نتائج کس قدر تباہ کن ہو سکتے ہیں۔