علامہ سید غلام شبیر بخاری (2)

علامہ سید غلام شبیر بخاری (2)
علامہ سید غلام شبیر بخاری (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک واقعہ یہ تھا کہ جب وہ مغربی پاکستان کے ایڈیشنل ڈی پی آئی تھے۔ ایک سیکرٹری تعلیم (وہ فوت ہو چکے ان کا نام لینا مناسب نہیں) دفتری اوقات کے بعد ان کے دفتر میں محفل جماتے اور نا مناسب قسم کے کام ہوتے۔ علامہ صاحب اس بات سے کافی تنگ تھے۔ انہوں نے حکام بالا کو اطلاع دی ، مگر کسی نے مذکورہ سیکرٹری کے خوف سے ان کا ساتھ نہ دیا۔ بالآخر انہوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ ان کے دفتر کو دفتری اوقات کے بعد کوئی صاحب استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ایک طوفان کھڑا ہوگیا، مذکورہ سیکرٹری تعلیم نے علامہ صاحب کو انتقام کا نشانہ بنایا اور ان کو لاہور سے انسپکٹر آف سکولز ملتان لگا دیا اور پوری کوشش کی کہ ان کو ہر طرح سے تکلیف دی جائے۔ ان کی ایک سال کی ترقی بھی بند کر دی، مگر اللہ تعالیٰ کا فضل علامہ صاحب کے شامل حال تھا۔ وہ شخص ان کا بال بیکانہ کر سکا۔ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین ڈٹ گئے کہ ان کی خدمات کو دیکھ کر ہم تو ان کا کیس برائے ترقی Process کر رہے تھے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی۔ دوسرا واقعہ بھی اسی قسم کا تھا۔ جس میں ایک سیکرٹری تعلیم اس قسم کی حرکات کرتا تھا، جبکہ علامہ صاحب ڈائریکٹر تعلیم بہاولپور تھے۔ یہ ضیاءالحق کا دور تھا۔ جب علامہ صاحب ملتان ڈائریکٹر تعلیم تھے تو ضیاءالحق جو ان دنوں ملتان میں شاید کور کمانڈر تھے، نعت کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے، علامہ صاحب نے ضیاءالحق صاحب کو اس کی شکایت کی، مگر وہ بھی کچھ نہ کر سکے اور ان صاحب کا انجام عبرتناک ہوا اور وہ بھی ذلیل ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے۔؟
علامہ صاحب پاکستان رائٹرز گلڈ کے باقاعدہ ممبر تھے اور گلڈ کے مقاصد جلیلہ میں جتنی بھی سعی ہوئی ہیں ان میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ گلڈ کے تحت ہونے والے مختلف پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ جن میں مشاعرے اور ادبی محفلیں ہوتی تھیں۔ علامہ صاحب ایک بہت بڑے عالم اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ رائٹرز کالونی علامہ اقبال ٹاو¿ن کی مسجد میں کم و بیش پندرہ سال تک خطبہ جمعہ و عیدین دیتے رہے۔ ان کی تقاریر علم و دانش کا مرقع ہوتیں اور اعتدال کی راہ اور فہم دین میں مددگار ثابت ہوتیں۔ مسجد میں آنے والے نمازی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ علامہ مرحوم کا ایک شہرہ آفاق کارنامہ قرآن پاک کی تفسیر ہے۔ اختصار البیان مافی القرآن ایک ایسی تفسیر ہے، جسے سادہ، عام فہم انداز میں لکھا گیا اور کسی قسم کی غیر منطقی سوچ سے پاک ہے۔ تفسیر کے پانچ ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں جسے بلا معاوضہ ہر سال رمضان شریف کی ستائیسویں کو تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ آخری ایڈیشن ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے چھپوایا اور لوگوں میں تقسیم کیا۔
  علامہ صاحب نے بطور مدیر ملک کے معروف جرنلز میں کام کیا، جن میں ”الزبیر“ (اردو اکیڈمی بہاولپور) تہذیب الاخلاق (علی گڑھ طلباءکا رسالہ) اور تفکر ( مخدوم جہانیاں اکیڈمی لاہور) نمایاں ہیں۔ علامہ صاحب کی تصانیف: تعلیمی خطوط، جذبہ درد، لارڈ میکالے کا نظام تعلیم، سوز دروں اور انساب سادات چونیاں۔ جن ادبی و دینی محفلوں میں علامہ شرکت فرماتے انہیں حکیم نیئر واسطی (مستی گیٹ) میاں اسلم صاحب (بارود خانہ اندرون بھاٹی گیٹ)، ماڈل ٹاو¿ن سوسائٹی ( نواب مشتاق احمد خاں) علی گڑھ اولڈ بوائز غالب روڈ، حکیم سعید صاحب شام ہمدرد، درس مولانا احمد علی لاہوری شیرانوالہ گیٹ، مولانا مودودی اچھرہ ذیلدار پارک۔

جن لوگوں سے وہ بے حد متاثر تھے اور ان سے ملاقات کی اور بعض کے ساتھ خط و کتابت بھی تھی۔ ان میں علامہ اقبالؒ،قائداعظم محمد علی جناحؒ، ڈاکٹر ذاکر حسین، سر شاہ محمد سلیمان، خواجہ غلام السیدین، مولانا محمد علی لاہوری، عبداللہ یوسف علی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، سر صادق محمد خان نواب بہاولپور، مسٹر جسٹس رستم کیانی، جنرل شفیق الرحمن، نواب مشتاق احمد خاں، عبدالعزیز میمن، ڈاکٹر عبدالسلام، محمد طفیل، ہاشم رضا، مسرت حسین زبیری، بہزاد لکھنوی، غلام حیدر وائیں، حکیم محمد سعید، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر نذیر احمد ، جسٹس محمد حسن سندھو، آغا شیر احمد خاموش، ڈاکٹر جہانگیر خاں، پروفیسر ایم اے خان، پروفیسر یو کرامت، ڈاکٹر عبداللطیف، ڈاکٹر غلام یٰسین نیازی، مولانا عبدالستار نیازی، عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا احسان شجاع آبادی، مفتی محمود، عبدالرحمن بزمی، پروفیسر اسلم، حفیظ جالندھری، فخر الدین بلے اور پروفیسر عبدالحمید (اس وقت زیادہ تر احباب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں).... موجودہ احباب: ڈاکٹر خالدآفتاب، ڈاکٹر خلیق الرحمن، ڈاکٹر عبدالمجید اعوان، پروفیسر ایم اے سعید، شیخ مختار احمد، مجید نظامی،چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ اور نگ زیب (صحافی)، شفیق کھوکھر (صحافی)، محبوب سبحانی (صحافی)، سرفراز سید، جاوید طفیل، بشیر وثیر، سعید بدر (صحافی)، جلیل نقوی، عطاءالحق قاسمی، ڈاکٹر سلیم اختر، اسلم کمال، میر عبدالحمید اور منصور عاقل۔
علامہ صاحب نے ایک بڑا ذخیرئہ کتب چھوڑا ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (لاہور) کو بھی انہوں نے اپنی کتب Donate کیں۔ ان کا ارادہ تھا کہ رائٹرز گلڈ لائبریری کو بھی کتابیں Donate کریں گے۔ بقول اقبالؒ:

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ تیرے گھر کی نگہبانی کرے
(ختم شد)

مزید :

کالم -