جذبہ صادق

چودھری محمد صادق لالہ صحرائی کا ذکر پہلے پہل میں نے جناب احمد ندیم قاسمی سے سنا اور بکمال محبت، ایک عزیز دوست کی حیثیت سے سنا۔ بعدازاں بعض اور حلقوں میں بھی اسی ذکر خیر کی بازگشت سنائی دی جس میں ان کی شخصیت کی نفاست، پاکیزگی، اعتدال اور اخلاص ابھر کر سامنے آتے تھے۔ افسوس کہ مجھے خود کبھی ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہوسکا۔
جناب لالہ صحرائی نے برصغیر کی ادبی روایت کو بہت دیر تک قریب سے دیکھا۔ لڑکپن ہی سے ان کی طبیعت کلاسیکی ادب کی طرف مائل ہوگئی جس میں ان کا استغراق تازندگی باقی رہا۔ انہوں نے ہر مکتب فکر کے ادب کو انہماک سے پڑھا مگر ان کا اپنا ادبی مسلک ان کی مضبوط دینی و اخلاقی تربیت پر استوار رہا۔
لالہ صحرائی اگرچہ جوانی میں بھی شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے تھے مگر طبیعت جلد ادھر سے ہٹ گئی اور نثر ہی ان کے قلم کی جولاں گاہ رہی اور اسی حوالے سے پہچانے گئے۔ انہوں نے مضامین، خاکہ، رپورتاژ، افسانہ، طنزومزاح، ترجمہ، تبصرہ، ڈرامہ، سفرنامہ جیسی متنوع اصناف میں بہت کچھ لکھا۔ پیرانہ سالی میں جب کئی بار حج و عمرہ کی سعادت پائی اور روضہ رسول پر حاضری نصیب ہوئی تو نعت گوئی کی آرزو دل میں چٹکیاں لینے لگی اور پھر ایسے بھرپور انداز میں پوری ہوئی کہ اس کا فیضان آخری وقت تک جاری رہا۔ ان کے اپنے ہی الفاظ میں:
اک نعت مسلسل ہے مری روح پہ طاری
جب سے کہ ہوا ہوں میں فقط نعتیہ شاعر
یہ سب مری نعتیں ہیں اسی نعت کے ٹکڑے
اس نعت کا مقطع میں کہوں گا دمِ آخر
۱۹۹۱ءسے ۰۰۰۲ءتک.... (جو اُن کا سالِ وفات ہے).... نعت گوئی کا تسلسل جاری رہا جس کے نتیجے میں پندرہ نعتیہ مجموعے مرتب ہوگئے.... لالہ صحرائی کی نعت بنیادی طور پر جذبے کے وفور سے عبارت ہے۔ وہ آرائشِ فن کا دعوی نہیں رکھتے مگر ان کا یہ انکسار اس وقت کھل جاتا ہے جب ہم غالب کی متعدد غزلیہ زمینوں میں ان کی نعتیں دیکھتے ہیں یوں بھی سادگی اور برجستگی جب احساس کی صداقت سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے تو مہارتِ فنی سے آگے کی چیز بن جاتی ہے:
اے خدا شہر نبی میں مجھے گھر مل جائے
جس سے کھُلتا ہے نصیبہ وہی در مل جائے
............
روضہ¿ مصطفی ہے مرے سامنے
فضلِ ربِ علا ہے مرے سامنے
اللہ اللہ! مواجہ کے نزدیک ہوں
میرا بختِ رسا ہے مرے سامنے
............
ختمِ رسل سے جذبِ ارادت، درودِ پاک
نطق و بیاں کی ایک سعادت، درود پاک
ہے میری کیفیات کی تطہیر کا فروغ
میرے تخیلات کی رفعت، درودِ پاک
............
حُبِ نبی سے دل مرا سرشار ہوگیا
خوابیدہ تھا جو بخت وہ بیدار ہوگیا
لالہ صحرائی نے نعت گوئی میں ہیئت کے تجربے بھی کئے چنانچہ پابند نظم کے علاوہ آزاد نظم کو بھی برتا اور مخمس، مسدس، دوبیتی اور قصیدہ کی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی.... پنجابی میں بھی نعت لکھی اور اردو نعت میں پنجابی ماہیے کے آہنگ کا بھی تجربہ کیا جسے ”نعتیہ ہائیکو“ بھی کہا جاتا ہے۔
نعت کے علاوہ انہوں نے حمدیہ شاعری بھی کی، احادیث کے مضامین اور غزوات کے واقعات کو نظم کیا اور قومی و ملی موضوعات اور شخصیات پر عمومی نظمیں بھی کہیں۔ نظم و نثر کا یہ سارا سرمایہ ایک طرف قرطاس و قلم سے ان کے مضبوط رشتے کا عکاس ہے اور دوسری طرف ان کے ایمانِ راسخ کا آئینہ دار۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت ر