یہ انقلاب کہاں سے آئے گا، کِس کے کہنے پر آئے گا؟
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ملک میں آئینی وجمہوری انقلاب چند ہفتوں میں آنے والا ہے ، اس سے متعلق تاریخ اور طریقے کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ مرکزی سیکرٹریٹ میں مسلم لیگ(ق) کے چودھری پرویز الٰہی، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ راجہ ناصر عباس اور سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، افسران اور اہلکار سُن لیں کہ آئینی اور جمہوری انقلاب چند ہفتوں میں آنے والا ہے، جس میں آئین پاکستان کی پہلی 40 شقوں کے نفاذ سے عوام کو بنیادی حقوق دیئے جائیں گے اور بے رحم احتساب ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چند روز میں عوامی، آئینی اور جمہوری یوم انقلاب اور اس کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ یوم انقلاب کے لئے ملاقاتیں شروع ہو چکی ہیں، جو ایک ہفتے میں مکمل کر لی جائیں گی۔انہوں نے عوامی انقلابی کونسلوں کے قیام کی باقاعدہ منظوری دیتے ہوئے کہا کہ یہ مرکزی، صوبائی، ڈویژنل، ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر ہوں گی۔ اگلے مرحلے کے لائحہ عمل سے قبل ہی اس کا ڈھانچہ مکمل ہو جائے گا، جس دن کرپٹ، عوام، جمہوریت، آئین و قانون کے دشمن حکمرانوں کا خاتمہ ہو گا، اُس کے اگلے ہی روز انتظامی نگران کونسلیں نظام سنبھال لیں گی۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے سول سروسز کے افسران اور اہلکار وں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرپٹ حکمرانوں کے غیر قانونی اور ناجائز احکام ماننے سے انکار کر دیں، کیونکہ ان کو تنخواہیں ریاست پاکستان سے دی جاتی ہیں۔ انہوں نے تحفظ پاکستان بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ا س کے تحت سیاسی مخالفین سے انتقام لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین، قانون شکنی، ضمیر فروشی، عوام کو قتل اور ہراساں کرنے والے گرفتار ہوں گے اور ان کا احتساب ہو گا، بیشک یہ تعداد لاکھوں میں چلی جائے ۔ اُن کی جگہ ایک ہفتے میں چناؤکے ذریعے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد عارضی طور پر تھانے سنبھال لیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ انقلاب کو کسی سونامی پر کوئی بھروسہ یا اس کی ضرورت نہیں، عمران خان کا اپنا ایجنڈا اور پروگرام ہے، اللہ کرے ان کا یہ پروگرام اور ایجنڈا کامیاب ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انقلاب اور سونامی کسی جگہ پر آ ملیں، لیکن انقلاب کا بھروسہ کسی سونامی پر نہیں، یہ ہر حال میں آئے گا۔
ایک طرف طاہر القادری نے پریس کانفرنس کی اور دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرنے کے لئے شرائط رکھ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چار حلقوں میں تصدیق کے لئے سپریم کورٹ، نئے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 3رکنی کمیشن بنائے اور عدالتی کمیشن دو ہفتوں میں نتائج دے تو لانگ مارچ کی کال واپس لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو وہ خود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس جا کر معذرت کریں گے اور اگر چار حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوگئی تو پھر مڈٹرم الیکشن ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ14اگست کو نئے پاکستان کی تحریک شروع ہو گی اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لئے اب جنگ ہو گی۔
بے شک پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس میں ہر پارٹی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا منشور دے، رائے عامہ ہموار کرے، انتخابات کے ذریعے ووٹ حاصل کر کے بر سر اقتدار آئے اور اپنی حکومت قائم کرے۔ ملک میں قانون موجود ہے، دستور موجود ہے اور اس کے تحت انتقال اقتدار کا ایک طریقہ بھی ہے۔ کوئی انقلاب لائے یا سونامی،غیر آئینی طریقے سے حکومت حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے ملک میں جمہوری نظام کیسے قائم رکھ سکیں گے؟جب 2013ء میں قانونی طریقے سے انتخابا ت کے ذریعے عوام کی رائے جاننے کا وقت تھا تب تو پاکستان عوامی تحریک نے الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ اتنا ہی ان کو عوام پر بھروسہ تھا تو الیکشن لڑتے اوراکثریت ثابت کر کے شان سے بر سر اقتدار آتے، لیکن جیسے اب وہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اس کی اجازت کون سا قانون دیتا ہے؟ یہ انقلاب کہاں سے آئے گا؟ کون لائے گا؟ سب سے اہم یہ کہ کس کے کہنے پر لایا جائے گا؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کل کو جماعت اسلامی کو مسئلہ ہو گا، تو وہ بھی اٹھ کر انقلاب کے نعرے لگانا شروع کر دے گی۔ یا کوئی اور جماعت لانگ مارچ کا اعلان کر دے گی،ہر کوئی دھینگا مشتی کرے گا اور حکومت کرنے کے خواب دیکھے گا۔ قادری صاحب نے خود ہی کونسلیں تشکیل د ے دی ہیں، یہ فیصلہ بھی انہوں نے خود سے ہی کر لیا ہے کہ وہ اگلے روزہی انتظامی امور بھی سنبھال لیں گی۔ یہ سب وہ کس قانون کے تحت کر رہے ہیں؟ ان کونسلوں کی کوئی چہرہ نمائی نہیں ہوئی، ان کا حدود اربعہ کیا ہے؟ آئین کی کونسی شق اُن کو ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ ایک غیر آئینی طریقے سے قانون کیسے نافذ ہو سکتا ہے؟ کسی کے پاس کوئی ویٹو پاور نہیں ہے۔ طاقت کے مظاہرے سے انقلاب لانا، دنگا فساد مچانا، کہاں کا انصاف ہے؟ کس قانون کے تحت قادری صاحب پولیس اور سول افسران کو بغاوت پر اُکسا رہے ہیں؟ کیا وہ ملک کو سول وار کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں؟ اور یہاں طوائف الملوکی پھیلانا چاہتے ہیں؟
ملک میں جمہوریت کی بحالی کے پیچھے طویل جدو جہد ہے اور اس کے مثبت نتائج اسی وقت سامنے آئیں گے جب سسٹم کوچلنے دیا جائے گا۔ ویسے تو طاہر القادری نے کہا ہے کہ ان کا عمران خان سے ہاتھ ملانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ہو سکتا ہے کسی پوائنٹ پر جا کر دونوں اکٹھے ہو جائیں، تو پھر ہماری تو یہی گزارش ہے کہ یہ دونوں رہنما مصافحہ کر لیں، لیکن لانگ مارچ یا انقلاب کے لئے نہیں، بلکہ جمہوریت کے استحکام کے لئے، ملک کی سالمیت کے لئے۔ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل نہیں کئے جاتے، طالبان کے خلاف بھی آپریشن اس لئے جاری ہے،کیونکہ وہ بھی طاقت اور دھونس کے بل پر اپنی بات منوانا چاہتے تھے۔ پاکستانی عوام اس ملک میں کوئی جنگل کا قانون نہیں چاہتے، بلکہ جمہوری انداز میں ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان دونوں رہنماؤں کو چاہئے کہ اپنی اپنی ضد چھوڑ کر سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے مثبت لائحہ عمل اپنائیں۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے۔