میزبان چلاگیا

میزبان چلاگیا

  

محمد ایوب اپنے پرائیوٹ لاء کالج کے پرنسپل کی مسند پر بیٹھاخوبصورت لگتا تھا ۔ مسکراتے چہرے کے ساتھ دوستوں کا استقبال کرتا تھا ۔ اس کا دسترخوان ہر وقت وسیع رہتا ۔ ہم اکثر پوچھتے آپ کا کالج کیسا چل رہا ہے وہ مسکرا کر کہہ دیتا اللہ کا شکر ہے گزارا ہو رہا ہے ۔ سات دوستوں کا حلقہ جسے ہم نے کے پی سی (کھاؤ پیو کمیٹی )کا نام دے رکھا ہے گزشتہ پچیس سال سے دھیرے دھیرے چل رہا ہے ۔ ہم ہر مہینے دو مہینے بعد اکثر اس کے کالج میں اور کبھی کبھی کسی اور جگہ ملتے ،اسی لیے وہ ہی ہمارا اکثر میزبان تھا۔ ہم وہاں اکٹھے ہوکر صرف کھانا ہی نہیں کھاتے، بلکہ اس پورے عرصے کے دوران ہونے والی ملکی اور تنظیمی سیاسی پیش رفت کا تجزیہ بھی گہرے انداز میں کرتے تھے۔ ایک طرف وکیلوں کے رہنما ضیاء الدین انصاری ہیں جو لاہور میں اٹھنے والے ہر سیاسی جوار بھاٹا کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔ لاہور جو سیاسی ، سماجی تحریکوں کا نقطۂ آغاز ٹھہرتا ہے اس کو کونسی سیاسی پارٹی کتنی اہمیت دیتی ہے۔ یہ ساری باخبری ضیاء الدین انصاری دیتا ہے ۔

شفیق شیرازی ہر وقت بروقت پہنچ جاتا ہے اور جاوید اقبال صدیقی کو کئی دعائیں اور ٹیلی فون کر کے مجبور کرکے لانا پڑتاہے ۔ ملتان روڈ پر واقع جنرل ہیڈکوارٹر کا سرکاری ترجمان ملک الیاس ہے اوراس کے مقابلے میں غیر سرکاری بدترین ناقد امجد ظہور وڑائچ ہے ۔دونوں کی نوک جھونک اور متضاد بیانات سے کئی چیزیں سامنے آتی ہیں ۔ دینی اور سیاسی دربار عالیہ میں نئے ظلِ الٰہی کو کیا پرابلمزدرپیش ہیں ان کی سادہ لوحی سے قدوقامت میں سیاسی بونے اپنی تصویریں کھنچوا کھنچوا کر کیسے قد اونچا کرنا چاہتے ہیں ۔ محل سراء میں ہونے والی درپردہ سازشوں سے کیسے ظلِ الٰہی کو بے خبر رکھا جاتا ہے ۔ یہ چلن آج کوئی نیا نہیں صدیوں پرانا ہے۔ حکمتِ عملی اور بے تدبیریوں پر تنقید بھی برسوں سے جاری ہے ۔ یار دوست ہیں کہ انہیں اندیشہ سودوزیاں ہی نہیں ۔ بقول غلام محمد قاصر :

ہے شوقِ سفر ایسااک عمر سے یاروں نے

منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا

لہٰذا صالحین کا یہ قافلہ نجانے کس منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔ ان سب باتوں کے باوجود عابد شیروانی کے بغیر یہ محفل ادھوری رہتی ہے جو بیوروکریسی کے کچھ نئے اندرونی رازوں کا واقف ہے۔ اس وقت پورے مُلک کے انتظامی ڈھانچے کو درپردہ جس چیز نے مفلوج کر کے رکھ دیا وہ سول بیوروکریسی ہے۔ ریاست کا کوئی ادارہ بھی بااختیار نہیں ہے یا پھر اپنے فرائض کماحقہ ادا نہیں کررہا ۔عدالتی نظام کا مالی کرپشن ، حکومتی ، سیاسی دباؤ کی وجہ سے براحال ہے ۔ اب برسوں سے التوا میں پڑے فیصلوں پر عمل درآمد ہورہا ہے ۔ قوم پھانسیوں کے لفظ سے خوفزدہ ہے ۔ آجا کر گیم ساری بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے، جس نے جوڈیشل کمیشن کے عمل میں کرشماتی کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔یہ سول بیوروکریسی جو پاکستان بننے سے پہلے سے ہی اس کے اعصابی ڈھانچے پر قابض ہے ۔ اب تو کرپٹ اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی وجہ سے بالکل مادر پدر آزاد ہے ۔ اس کے بارے میں سب سے بڑے صوبے پنجاب اور مرکز کے بارے میں نئی معلومات اور تبدیلیاں ہمارا دوست عابد شیروانی بتاتا رہتا ہے ۔ اس کی کچھ مخبریاں سچی ہوتی ہیں اور کچھ حالات کے جبر کی وجہ سے نقش بر آب ثابت ہوتی ہیں۔

ان تمام ملی جلی باتوں کی بنیاد پر یار لوگ اپنا اپنا تجزیہ باندھتے ہیں ، دور کی کوڑی لاتے ہیں اور پھر بالآخر بات لاہور کے سیاسی حالات اور ذاتی حالات پر جا کر ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کلب کا ایک ممبر ہوائی پرندہ محمد اسلم خان بھی ہے جو کبھی کبھار حسبِ عادت اچانک نازل ہوجاتا ہے ۔ اپنی دھن کا پکا، محفل پر غالب رہنے کا جنوں رکھنے والا ، اپنی آنیاں جانیاں شو کرنے والا نجانے اسلام آباد سے کیسے ٹپک پڑتا ہے ۔ کچھ برسوں سے اسے کالم نگاری کا شوق ہے اور علی الصبح قریبی ترین ایک دو دوستوں کو اپنے کالم پر جبراَ تبصرہ کرانے کا بھی شوق ہے ۔ لہجے کی بے باکی اور حریت فکر کا جذبہ نہ گیا اور بعد میں پچھتانے کی عادت بھی نہ گئی۔

باہمی مالی معاونت سے چلنے والا یہ کلب کچھ اور لوگوں کو بھی مصروف کر دیتا تھا اور میاں محمد ایوب مرحوم کے کالج کا عملہ بھی اس میں پوری معاونت کرتا تھا ۔ یوں تو برسوں سے ایک خاندان کی مسلسل کفالت میاں محمد ایوب کررہا تھا اور نہ جانے کتنے مستحقین روز محشر اس کی بخشش کا ذریعہ بنیں گے ۔یوں خدمتِ خلق کا دیا تھا جو جلاہوا تھا ۔ حالات کے تھکے ماندے دوستوں کا ایک تکیہ تھا جو بنا ہوا تھا،جو مئی 2015ء کو موت کے آہنی ہاتھوں ویران ہو گیا۔ میاں محمد ایوب برسوں جگر کے عارضے میں مبتلا رہا اس موذی مرض اور خطرناک بیماری سے جنگ لڑتا رہا۔ بالآخرکل نفس ذائقتہ الموت ۔ ہر شخص نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور وہ بالآخر اپنے خاندان بیوی بچوں ، دوستوں عزیزوں کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے جاسویا۔ہم باقی کے چھے دوست زنجیر کی ایک کڑی ٹوٹنے پر سخت افسوس کا ا ظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو ہمارا یہ کلب ایک چھوٹا موٹا تھنک ٹینک ہی ہے جو عالمی ، قومی ، مقامی اور ذاتی مسائل تک کو زیرِ بحث لاتا ہے ۔ یہی صدیوں سے تبادلہ خیالات کا طریقہ ہے۔ یہی ایک وقت میں تھڑا پالیٹکس بن گئی اور آج اس کی بدترین شکل ٹی وی ٹاک شوز ہیں۔ سیاسی ابلاغ کے سارے پنڈت بھی جس کا حل نکالنے میں آج ناکام ہیں۔

مزید :

کالم -