’’صدقہ فطر کے احکام و مسائل‘‘

’’صدقہ فطر کے احکام و مسائل‘‘
 ’’صدقہ فطر کے احکام و مسائل‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا ہے، نیز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کے بارے میں یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو عیدالفطر کی نماز کے لئے جانے سے پہلے دیدیا جائے۔‘‘ (بخاری شریف) صدقہ فطر ہر اس شخص پر واجب ہے جو اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے کہ جن کی طرف سے صدقہ فطر دینا اس کے ذمہ ہے ایک دن کا سامان خوراک رکھتا ہو اور وہ بقدر صدقہ فطر اس کی ضرورت سے زائد بھی ہو بعض کے نزدیک صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہوگا جو غنی ہو، یعنی وہ اپنی ضرورت اصلیۃ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اسباب وغیرہ کا مالک ہو، یا اس کے بقدر سونا چاندی اپنی ملکیت میں رکھتا ہو اور وہ قرض سے محفوظ ہو۔


صدقہ کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت ہوتا ہے۔ اولاد اگر چھوٹی ہو اور مالدار نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں اگر اولاد مالدار ہو تو پھر اس کا صدقہ فطر اس کے باپ پر واجب نہیں ہے،بلکہ اس کے مال میں سے دیا جائے گا۔ بڑی اولاد جس پر دیوانگی طاری ہو اس کا حکم بھی چھوٹی اولاد کی طرح ہے،اسی طرح بڑی اولاد کی طرف سے باپ پر اوربیوی کی طرف سے خاوند پر ان کا صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر کوئی باپ اپنی ہوشیار اولاد کی طرف سے یا کوئی خاوند اپنی بیوی کی طرف سے ان کا صدقہ ان کی اجازت سے ازراہِ احسان و مروت ادا کر دے تو جائز ہو گا۔ہمارے مُلک میں چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے ۔اس لیے جو شخص گھر کا انتظا م انصرام چلا رہا ہو۔ وہ گھر کے سارے افراد چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے۔ بالغ ہوں یا نابالغ سب کا فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ہی اداکردینا مستحب ہے اگر کوئی شخص اس سے بھی پہلے خواہ ایک مہینہ یا ایک مہینہ سے بھی زیادہ پہلے دے دے تو جائز ہے۔ نماز عید کے بعد یا زیادہ تاخیر سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوتا بہرصورت دینا ضروری ہوتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روزوں کو بیہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لئے نیز مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔‘‘ (ابوداؤد) مطلب یہ ہے کہ صدقۂ فطر کو اس لئے واجب کیا گیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہوجائے وہ اس کی وجہ سے جاتا رہے نیز مساکین و غرباء عید کے دنوں میں لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچ جائیں اور وہ فطرانہ لے کر عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائیں۔


’’جو شخص صدقہ فطر نمازعید سے پہلے ادا کرے گا اس کا صدقہ ’’مقبول صدقہ‘‘ ہوگا اور جو شخص نمازعید کے بعد ادا کرے گا تو اس کا وہ صدقہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہوگا۔ حضرت عمر و ابن شعیبؒ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ کے گلی کوچوں میں یہ منادی کرائی کہ ’’سن لو! صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مردہو یا عورت‘ آزاد ہو یا غلام اور چھوٹا ہو یا بڑا (اور اس کی مقدار) گیہوں یا اس کی مانند چیزوں (مثلاً خشک انگور وغیرہ) میں سے دو مداور (گیہوں کے علاوہ دوسرے اجناس میں سے ایک صاع ہے۔ (ترمذی)


عام شخص سوا دوکلو جو یا اس کے برا بر قیمت یا کوئی جنس فطرانہ کے ادا کرے گا۔لیکن امیر افراد کواپنی حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ فطر عجوہ کھجور کا ادا کرنا چاہئے، جبکہ رواں سال عام شخص کا فطرانہ کم از کم 100 روپے ہے۔ ہمارے ہاں جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کا وقت آتا ہے تو حساب لگا کر دیتے ہیں اور جب بارگاہ الٰہی سے لینے کا وقت آتا ہے تو بہت لمبی لمبی امیدیں رکھتے ہیں جو سرا سر خود غرضی اور ناانصافی پر مبنی ہیں۔ ہر صورت یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں یقینی اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہر مسلما ن کو صدقہ فطرادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

مزید :

کالم -