چوراہوں کے بھکاری، ٹریفک پولیس کی ذمہ داری
مَیں پچھلے کئی برسوں سے اس بدگمانی کا شکار تھا کہ لاہور کی بڑی بڑی سڑکوں اور چوراہوں پر مانگنے والے بھکاریوں کو ٹریفک پولیس کے اہلکاروں اور افسروں کی آشیر باد حاصل ہے،لیکن کل کے اخبار میں ہمارے کرائم رپورٹر کی اس خبر نے میری بدگمانی ہَوا کر دی۔یہ اپنی نوعیت کی چونکہ پہلی خبر ہے اس لیے مَیں چاہتا ہوں کہ آپ یہ پوری خبر ایک بار پھر پڑھ لیں:
”گدا گر روکنے پر مشتعل ہو گئے، بھیک مانگنے سے منع کرنے پر ٹریفک وارڈن کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔بتایا گیا ہے کہ ٹھوکر نیاز بیگ سیکٹر میں تعینات ٹریفک وارڈن عدیل جو کہ قزلباش چوک میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا، وہاں اچانک پیشہ ور بھکاریوں کا ٹولہ بھیک مانگنے آ گیا۔ ٹریفک وارڈن عدیل نے ٹریفک کے بہاؤ میں خلل پڑنے پر انہیں منع کیااور انہیں ہٹانے کی کوشش کی توبھکاری بپھر گئے اور اس پرہلہ بول دیا۔بھکاریوں نے ٹریفک وارڈن کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔پولیس اطلاع ملنے پر موقع پر پہنچ گئی تو اس دوران بھکاری نو دو گیارہ ہو گئے۔ٹریفک وارڈن عدیل کا کہنا ہے کہ ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالنے کی وجہ سے ان کو چوک پر بھیک مانگنے سے منع کیاتھا، زخمی ٹریفک وارڈن کو طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا“۔
رمضان المبارک اور عیدین کے دِنوں میں تو لاہور کی سڑکوں اور چوراہوں پر جیسے فقیروں کے جلوس نکل آتے ہیں۔آپ جونہی کسی اشارے پر گاڑی روکتے ہیں،فقیر چاروں طرف سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ گاڑی کے بند شیشے کھٹکھٹاتے ہیں اور اُس وقت تک کھٹکھٹاتے رہتے ہیں جب تک آپ ان کی ہتھیلی پر بھیک نہ رکھ دیں۔
مجھے مانگنے والوں سے سخت نفرت ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ میری ساری زندگی سخت محنت اور مشقت میں گزری ہے۔ محنت اور مشقت کرنے والے لوگ مجھے اچھے لگتے ہیں۔مَیں ان کی کسی نہ کسی طرح سرپرستی حمایت اور سفارش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔اگر آپ کسی محنتی آدمی کی سفارش کرتے ہیں تو یہ سفارش نہیں،جوہر شناسی ہے۔ اول تو مَیں بھکاریوں کو بھیک دیتا نہیں اور اگر دیتا ہوں تو صرف انہیں جو اپنے اندر موجود کسی فن کو بروئے کار لا کر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مثلاً اگر کسی بھکاری نے ہارمونیم اٹھا رکھا ہو اور وہ میرے سامنے دو چار شعر ترنم سے پڑھے تو مَیں اُسے کچھ نہ کچھ ضرور دیتا ہوں۔ یہ بھیک نہیں ہوتی، اس کے فن کا اعتراف ہوتا ہے۔ وائپر سے گاڑیوں کے شیشے چمکانے والے لوگ بھی سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ مَیں انہیں بھی محنت کش سمجھتا ہوں۔ یہ پیسے طَے کئے بغیر آپ کی گاڑی کا شیشا چمکا دیتے ہیں،اب آپ کی مرضی ہے کہ انھیں دس روپے دیں یا پچاس روپے۔ یہ صبر شکر کر کے رکھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ ٹریفک کے بہاؤ میں خلل بھی نہیں آنے دیتے۔ سرخ بتی پر آپ کے پاس آتے ہیں۔ سبز اشارہ روشن ہوتے ہی سڑک سے ہٹ جاتے ہیں۔حتیٰ کہ کئی بار اپنی مزدوری بھی چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن پیشہ ور گدا گر ہم سفید پوش گاڑی والوں کا ہر ٹریفک اشارے پر مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ انھیں بھیک نہ دیں تو سخت غصے کا اظہار کرتے ہیں۔اگر آپ ان کی اصلاح کے لیے ایک آدھ فقرہ کہہ دیں تو ان کے تیور دیکھنے والے ہوتے ہیں۔بیش تر فقیر تو ترنت جواب دیتے ہیں۔ بعض فقیر اتنے ”عقل مند“ ہیں کہ سرخ بتی ہوتے ہی وہ آپ کی گاڑی کے عین سامنے آ کر آپ کی گاڑی کو روکتے ہیں یہ عمل سوائے سینہ زوری کے کچھ نہیں۔
ٹھوکر نیاز بیگ میں ہونے والے ایک واقعے سے آپ یہ مت سمجھئے کہ سڑکوں اور چوراوہں پر مانگنے والے گدا گروں اور فقیروں کی سرپرستی کوئی نہیں کرتا۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ممکن ہے کہ قزلباش چوک پر تعینات ٹریفک وارڈن عدیل ان گدا گروں کی سرپرستی نہ کرتا ہو،لیکن باقی چوراہوں پر تعینات ٹریفک وارڈنوں کی گارنٹی کون دے سکتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کا دامن پاک ہے؟
چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن لیاقت علی ملک کو سڑکوں اور چوراہوں پر مانگنے والے بھکاریوں کو ہٹانے کے لیے عدیل جیسے ٹریفک وارڈن تلاش کرنا ہوں گے جو فرض کو فرض سمجھتے ہیں، گاڑی والے ہر آدمی کو بھی تہیہ کر لینا چاہئے کہ سڑک اور چوراہے پر مانگنے والے کسی بھکاری کو بھیک نہیں دے گا،لیکن اس کے باوجود ان گدا گروں کو ہٹانے کی ساری ذمہ داری ٹریفک پولیس ہی کی ہے۔اگر اب بھی ان گدا گروں کے خلاف سی ٹی او لاہور کیپٹن لیاقت علی ملک نے کارروائی نہ کی تو یہ گدا گر آئندہ بھی ٹریفک اہلکاروں پر حملے کرتے رہیں گے۔