فلسطینیوں کی امریکی صدر کو دس ارب ڈالر کی پیش کش

فلسطینیوں کی امریکی صدر کو دس ارب ڈالر کی پیش کش
فلسطینیوں کی امریکی صدر کو دس ارب ڈالر کی پیش کش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مسئلہ فلسطین تاریخ کے نازک ترین اور حساس دور سے گزر رہا ہے ۔ یہ فلسطین کی ایک سو سالہ تاریخ میں اہم ترین موڑ ہے ۔ اسی وجہ سے امریکہ نے بھی فلسطین کے مسئلہ کو اور فلسطینیوں کی جد وجہد آزادی کو نابود کرنے کے لئے جس فارمولہ کی پیش کش کی ہے اس کو ’’صدی کی ڈیل ‘‘ یا صدی کا فارمولا نام دیا ہے ۔ گذشتہ دنوں ہی بحرین کے دارلحکومت منامہ میں امریکی قیادت میں صدی کی ڈیل کی مناسبت سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں امریکہ سمیت اسرائیل کے بڑے تاجروں اور چند خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے غیر اعلانیہ طور پر شرکت کی تھی ۔ اس کانفرنس کا مقصد فلسطین کے عوام کو مالی و معاشی پیش کش کر کے فلسطین سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر نہ صرف کویت بلکہ اردن اور پاکستان سمیت لبنان ، ایران اور شام سمیت دیگر ممالک نے اس فارمولہ کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا ۔ واضح رہے کہ فلسطینیوں نے پہلے ہی سنہ2017ء سے ہی اس معاہدے کی بازگشت کی شنید کے ساتھ ہی اسے سختی سے مسترد کر دیا تھا تاہم اب یہ صدی کی ڈیل کھلم کھلا مغربی و عربی ذراءع ابلاغ میں سامنے آ چکی ہے ۔ افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ پاکستان جیساے بڑے اسلامی ملک کا ذراءع ابلاغ اس صدی کی ڈیل کے بارے میں اس طرح اپنا کردار ادا نہیں کر پایا جیسا کہ پاکستان کی طرف سے کیا جانا چاہئیے تھا ۔

مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا اور فلسطینیوں کے خطے میں محدود کرنے سمیت اسرائیل کی غرب ایشیائی ممالک میں بالادستی کو یقینی بنانا، صدی کی ڈیل کے خد وخال میں سب سے نمایاں حصہ ہے ۔ یہاں یقینا قارئین کو حیرت کرنا چاہئیے کہ صدی کی ڈیل جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست کا پھیلاءو اور فلسطین سے دستبرداری سمیت فلسطین میں موجود مسلم امہ کے مقدسات سے بھی دستبرداری شامل ہے اس بارے میں کانفرنس میں امریکہ اور اسرائیل میں نہیں ہوئی بلکہ مسلمان عربوں کے ملک بحرین میں منعقد ہوئی ہے ۔

صدی کی ڈیل میں فلسطین کے بارے میں امریکی و اسرائیلی موقف کی حمایت کرنے والے تمام عرب ممالک اور ان کے بادشاہوں کو اقتصادی پیکجز دئیے گئے ہیں ۔ ان پیکجز میں نمایا ں ترین پیکج عرب ممالک کے بادشاہوں کی بادشاہت اور تخت کی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ نے اٹھا رکھی ہے جبکہ کچھ شہزادوں اور ولی عہدوں کو امریکہ کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ان کو آئندہ پچاس پچاس برس کی بادشاہت دی جائے گی اور ان کا تحفظ امریکہ کی ذمہ داری ہو گی ۔ حیرت کی بات یہاں پر یہ ہے کہ امریکہ جو خود اپنی افواج کی اور اپنے مفادات کی حفاظت خود کرنے سے قاصر ہے نہ جانے کس طرح یہ بے چارے عرب حکمران امریکی کاسہ لیسی اور جھانسوں میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اور اپنے لئے اپنی جہنم کا سامان خود تیار کر رہے ہیں ۔

بات فلسطین کی ہے تو آئیے فلسطینیوں کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے پہلے ہی فلسطین کے سودے کو نامنظور کر دیا ہے اور کسی بھی قسم کی دولت اور اقتصادی لالچ کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ بات یہان تک نہیں رکی ہے بلکہ فلسطینیوں نے اس سے بڑھ کر ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے صدی کی ڈیل کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی زعم اور تکبر کو بھی خاک میں ملا دیا ہے اور فلسطین میں اس وقت ایک بحث بہت تیزی کے ساتھ گردش کر تی نظرا ٓرہی ہے جس میں فلسطینی عوام کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کا مفاد اتنا ہی عزیز ہے تو پھر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو فلسطین سے نکال کر امریکہ میں قائم کر دیا جائے اور اس کام کے لئے فلسطینی عوام بھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔

فلسطینیوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کے عوام امریکی صدر کو دس ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں لیکن بدلے میں امریکہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو فلسطین سے ختم کرے اور امریکہ میں آباد کرے ۔ اس کام کے لئے فلسطین کا ہر بچہ بچہ اور ہر فرد دس ارب ڈالر کی رقم دینے کے لئے تیار ہے ۔

واضح رہے کہ بحرینی دارلحکومت منامہ میں صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے تحت ہونے والی کانفرنس کے بعد سے ہی فلسطین کے سوشل میڈیا پر یہ میسج گردش کر رہاہے کہ جس میں امریکی صدر کو فلسطینیوں کی طرف سے دس ارب ڈالر کی پیش کش کی گئی ہے اور اس کے عوض امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ وہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو امریکہ میں قائم کر لیں ۔ منامہ میں ہونے والی کانفرنس بعنوان صدی کی ڈیل میں اقتصادی لالچ اور دباءو کے ذریعہ امریکہ نے کوشش کی تھی کہ مغربی ایشیائی ممالک کی عرب ریاستوں اور ان کے بادشاہوں کی مدد سے فلسطین کا سودا کر لیا جائے گا اور فلسطین کو خرید لیا جائے گا لیکن فلسطین کے غیور اور شجاع لوگوں نے پوری دنیا کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ فلسطین بکاءو مال نہیں ہے اور فلسطین کے عوام امریکی صدر کو دس ارب ڈالر کی پیش کش کر رہے ہیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو امریکہ میں قائم کیا جائے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کا بہترین راہ حل یہ بھی ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کی رائے کا احترام کرے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو امریکہ میں قائم کر دے ۔ امید ہے کہ دس ارب ڈالر کے عوض امریکی صدر کو یہ سودا قبول ہو گا اور انہیں یقینا یہ سودا قبول کرنا چاہئیے کیونکہ اس سودے میں امریکہ کے لئے دو فائدے ہیں ، ایک طرف امریکی صدر کو دس ارب ڈالر ملیں گے تو دوسری طرف امریکہ کے سالانہ بجٹ پر بھی دباءو کم ہو جائے گا کیونکہ جو مالی امداد اسرائیل کے لئے امریکہ بھیجتا ہے یقینا کافی حد تک کمی ہو جائے گی ،اسی طرح امریکہ کو ان تمام فوائد سے زیادہ فائدہ اسرائیل کی سلامتی کا ہو گا کہ اسرائیل کو امریکہ میں کسی سے خطرہ نہیں ہوگا ۔ اس کام کے لئے جہاں فلسطینی عوام دس ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں وہاں یقینا مسلم دنیا کی فلسطین حامی حکومتیں اور عوام بھی اس کار خیر میں حصہ لیں گے ۔

.

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

.

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -