سینئر اداکار انور اقبال بھی چل بسے!
حسن عباس زیدی
تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، ادب اور فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات رواں برس ہم سے بچھڑ گئی ہیں۔اس سال ہم سے بچھڑنے والوں میں نیلو بیگم، کنول،نصیر،حسینہ معین،شوکت علی،سعید گیلانی،اعجاز درانی،حنیف جوئیہ،بیگم خورشید شاہد،اللہ دتہ لونے والا اور گونگا ڈھولیا کے نام نمایاں ہیں۔پاکستان کے معروف سینئر اداکار انور اقبال بھی گزشتہ دنوں چل بسے انکے ذاتی اور فنی پہلوؤں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ ان کا پورا نام محمد انور اقبال بلوچ تھا، مرحوم کے والد حاجی محمد اقبال بلوچ کا شمارسندھ اور بلوچستان کی بڑی سیاسی شخصیات میں کیا جاتا تھا۔ انور اقبال کراچی شہر میں 25 دسمبر 1949ء کو پیدا ہوئے اورگزشتہ ہفتے یکم جولائی 2021ء کو رحلت فرماگئے۔ کچھ عرصہ قبل ہی انور اقبال بلوچ کی اہلیہ کا بھی انتقال ہوا تھا جس کی وجہ سے مرحوم شدیدِ غم میں مبتلا تھے۔انور اقبال بلوچ نے سوگواران میں 4 بیٹیاں زباد انور، درین انور، مہر رنگ انور اور عائشہ انور چھوڑی ہیں ان کی بیٹیاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی سے اپنی منزلیں طے کر رہی ہیں۔ انور اقبال ہمیشہ ان کی کامیابیوں کا بڑی خوشی سے ذکر کیا کرتے تھے۔ ابھی حال ہی میں معروف اداکارہ بیگم خورشید شاہد انتقال کرگئیں اور اب تازہ ترین نام 'محمد انور اقبال بلوچ کا ہے۔ انور اقبال اس دنیا سے چلے گئے مگر اپنے کام کی صورت ہمارے لئے بہت ساری یادیں چھوڑ گئے۔ یہ کام ان کو پاکستانی فلمی اور ڈرامے کی صنعت میں زندہ رکھے گا اور ہمارے دلوں میں بھی کیونکہ سچے فنکار اپنے فن میں فنا ہوجاتے ہیں اور یہی ان کے سچے ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے، ایسی ہی ایک روشن علامت انور اقبال تھے۔انور اقبال نے اپنی وفات سے چند دن قبل شکوہ کیا تھا کہ بیماری کی حالت میں ان کی کھینچی گئی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچاہے۔ اس عمل میں مین اسٹریم میڈیا بھی برابر کا شریک ہے جس نے ان غلط خبروں اور تصویروں کو نشر کیا۔وہ کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے، قابل ڈاکٹرز ان کا علاج کر رہے تھے اور اس مشکل گھڑی میں اہلِ خانہ بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔ انہیں کسی قسم کی مالی تنگ دستی کا سامنا نہیں تھا، سب سے بڑھ کر وہ اپنی زندگی سے مطمئن تھے۔دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں ان کی متانت اور سنجیدگی جھلکتی تھی۔ وہ تمام عمر خوش لباس شخص کے طور پر جیے، ایسی شخصیت کی ناموزوں تصاویر وائرل کرنا، اور سوشل میڈیا، بالخصوص یوٹیوب پر ان کے حوالے سے من گھڑت تنگ دستی کی کہانیاں سنانا، ایک ایسا قبیح عمل ہے جو اکثر اس طرح کے مواقع پر دْہرایا جاتا ہے۔ مگر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ایسی فرضی ویڈیوز اور خبروں کو ہزاروں لاکھوں لائیکس مل رہے ہوتے ہیں جس سے معاشرتی بے حسی اور سماجی جہالت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
ذرا سوچیے کہ جس فنکار نے اپنی زندگی کے 40 سے زیادہ برس شوبز کی صنعت کو دے دیئے ہوں، وہ خوش لباس اور ملنسار بھی ہو، اسے اس طرح کی حرکتوں کے سبب جہانِ فانی سے رخصت ہوتے وقت کتنی اذیت ہوئی ہوگی۔ پھر کوئی سرکاری شخصیت، کسی ثقافتی شعبے کا کوئی نمائندہ ان کی عیادت کرنے بھی نہیں گیا۔ میری نظر میں اتنے حساس فنکار کو اس کے آخری وقت میں تکلیف دینے میں ہم سب برابر کے حصہ دار ہیں چاہے وہ سوشل میڈیا ہو، شوبز اور سرکار سے جڑے لوگ ہوں یا پھر ہم عوام، جنہوں نے ان کے جذبات کا قطعی خیال نہیں کیاحتیٰ کہ ان کی زندگی اور فنی خدمات کے حوالے سے بھی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر صرف رسم ہی نبھائی گئی، کسی نے ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جو فنی جہتوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ کسی بھی معاشرے کے زوال کی نمایاں نشانیوں میں سے ایک ناقدری ہے۔انور اقبال نے تمام تعلیمی مدارج کراچی کے بہترین اداروں سے طے کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا۔ اداکاری میں دلچسپی لینے کے بعد ہولی وڈ میں کام کرنا ان کا خواب تھا، جس کے لیے انہوں نے مکمل منصوبہ بندی کرلی تھی۔ وہ پہلے ایک امریکی ادارے سے اداکاری کی سند حاصل کرنا چاہتے تھے، ان کا وہاں داخلہ بھی ہوگیا تھا لیکن والد کی علالت نے ان کو وقتی طور پر روک دیا پھر والد ہی کی خواہش کے احترام میں وہاں جانے کا ارادہ ترک کردیا۔مگر پاکستان میں اپنی فنی جدوجہد جاری رکھی۔ اقبال انور کو پاکستان ٹیلی ویڑن پر معروف ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا نے متعارف کروایا۔ 1976ء میں نشر ہونے والا ان کا پہلا ڈراما 'آب اور آئینے' تھا، یہیں سے ان کی اداکاری کا سفر شروع ہوا۔ اسی سال ان کو مشہورِ زمانہ ڈرامے ”شمع'“میں کام کرنے کا موقع ملا جس میں ان کے کردار ”نانا کی جان قمرو“مشہور ہواتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کے ایک نامور اداکار بن گئے۔ ان کے دیگر مشہور سندھی اور اردو ڈراموں میں دوستن جو پیر، ہیلو ہیلو، آخری چٹان، شاہین، اساوری، بابر، چاکراعظم، ایمرجنسی وارڈ، زندگی، پل صراط، رشتہ انجانا سا، حنا کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔وہ ہالی ووڈ کی فلمی صنعت کو بہت مانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مصر سے عمر شریف ہالی ووڈ جاکر کامیابی سمیٹ سکتا ہے تو ہم پاکستان سے جاکر کچھ کیوں نہیں کرسکتے انہوں نے انگریزی فلمیں دیکھنے سے اپنے مشاہدے کو تیز کیا اور پاکستانی سینما بھی دیکھا۔ ہندوستانی اداکار دلیپ کمار کی شخصیت سے بے حد متاثر رہے اور انہی کی فلموں کو دیکھ کر اداکاری کرنے کا شوق پختہ ہوا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اپنا کیریئر شروع کرنا چاہتے تھے، فلم ”چراغ جلتا رہا“میں ان کو موقع بھی مل رہا تھا لیکن معروف اداکار محمد علی کے منع کرنے پر اس فلم سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہیے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب وہ ابھی طالب علم ہی تھے۔ہرچند کہ ان کا فلمی صنعت میں کیرئیر زیادہ طویل نہیں ہے، ڈرامہ صنعت میں ان کی مصروفیات زیادہ رہیں۔ اس کے باوجود فلم کا میڈیم ان کے دل سے قریب تھا جس کی ایک روشن مثال ہمارے سامنے موجود ہے اور وہ ہے پاکستان میں بننے والی پہلی بلوچی فلم ”ھمل ماہ گنج“۔ 1975ء میں یہ فلم تیار ہوگئی تھی اور اگلے برس ریلیز ہونی تھی، تاہم سیاسی مخالفت کی وجہ سے اس فلم کی نمائش روک دی گئی۔یہ فلم 40 برس سے بھی زیادہ عرصے تک ریلیز نہ کی جاسکی، اور ابھی کچھ عرصہ پہلے اس کی نمائش کراچی آرٹس کونسل میں بلوچ ثقافتی دن کے سلسلے میں ہونے والے پروگرام میں کی گئی تھی، اب یہ فلم یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے۔ اس فلم کے محرک انور اقبال کے بڑے بھائی اکبر اقبال تھے جن کی ناگہانی وفات کے بعد انہوں نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔انور اقبال اس فلم کے پروڈیوسر تھے اور اس میں ہیرو کا کردار بھی نبھایا تھا۔ فلم کے کہانی نویس فتح محمد نظر سکندری تھے جنہوں نے فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جبکہ مکالمے سید ظہور شاہ ہاشمی نے لکھے تھے۔ فلم کا منظرنامہ ایم اسلم بلوچ اور انور اقبال نے مشترکہ طور پر لکھا تھا۔ ان کے ساتھ دیگر اداکاروں میں ساقی، انتیا گل، اے آر بلوچ، نادر شاہ عادل، نور محمد لاشاری، شکیل لاسی، بوبی، محمد حسین مداری اور دیگر شامل تھے۔ فلم کی گیت نگاری معروف بلوچ شاعر عطا شاد نے کی تھی۔ عشرت جہاں اور ولی محمد نے اس فلم کے گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار اسلم بلوچ تھے۔15ویں صدی کے پس منظر میں حقیقی واقعات پر مبنی یہ بلوچی فلم ایک ایسے شخص کی کہانی پر مبنی ہے جو اپنے وطن کی محبت میں پرتگالی غاصبوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، پھر ایک پرتگالی لڑکی کو بلوچ جوان سے محبت بھی ہوجاتی ہے مگر وہ اس کو اپنے وطن کی محبت میں رد کردیتا ہے۔ اس فلم کے بننے اور نمائش نہ ہونے کے پیچھے ایک تاریخ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔