امریکہ "صلیبی جنگ" ہار گیا
مسلسل چار دہائیوں کی بد امنی اور خونریزی کے بعد افغانستان ناصرف آزادی کی جانب بڑھ رہا ہے بلکہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد ہمسایہ ملک دیرپا امن کی جانب بہت جلد تیزی سے بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ اس وقت افغانستان کے اندرونی امن اور انتظامی معاملات کو لے کر مختلف حلقوں کی جانب سے جس تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، اب کی بار اس تشویش کے حوالے سے اندازے غلط ثابت ہوتے دکھائی دیں گے اس کی بڑی وجہ افغان عوام کی اکثریت کی طالبان سے والہانہ عقیدت و محبت اور اسلام پسندی ہے۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد افغانستان کے اندر بد امنی کا جن جس طرح بے قابو ہوگیا تھا اس نے ناصرف ایک تباہ حال ملک کو مزید تباہی کی طرف دھکیلا بلکہ افغان عوام کے ناک میں بھی دم کرکے رکھ دیا۔ پھر ملا محمد عمر کی قیادت میں مدارس کے طلباء اٹھے اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے بد امنی کے اس بے قابو جن کو بوتل میں بند کرکے افغانستان پر ایک مثالی حکومت قائم کی۔ اس حکومت کے دوران افغانستان میں اتنا امن تھا کہ کوئی طلائی زیورات سے آراستہ تنہا خاتون کابل سے قندھار تک سفر کرتی تو اسے کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ کرتا۔
ملا محمد عمر کی حکومت کے دوران میں نے اپنے آبائی شہر ڈسکہ میں ایک پروگرام میں جے یو آئی کے درویش صفت رہنماحافظ حسین احمد اور اس وقت کے رکن قومی اسمبلی مولانا شجاع الملک کو مدعو کررکھا تھا، حافظ صاحب کا تعلق کوئٹہ سے ہے ان کے ساتھ بلوچستان کے چار علماء بھی تشریف لائے تھے، ان علماء سے جب طالبان حکومت کی بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ چند روز قبل قندھار گئے، جب انہوں نے مارکیٹ کے اندر جانے کے لئے گاڑیاں پارک کیں اور انہیں لاک کرنے لگے تو لوگوں نے منع کیا کہ آپ بیشک بغیر لاک کے گاڑیاں چھوڑ جائیں، طالبان حکومت میں ہر شے محفوظ ہے۔ ان علماء نے بتایا کہ ہم گاڑیاں کھلی چھوڑ کر چلے گئے اور کئی گھنٹوں بعد جب واپس آئے تو مقامی لوگوں کی بات کو سچ پایا۔ ہماری گاڑیاں کھلی تھی اور کسی نے انہیں چھوا تک نہیں تھا۔
طالبان حکومت کے حوالے سے شیخ الحدیث و القرآن مولانا حمد اللہ جان رحمہ اللہ کی بات نے تو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مولانا کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی اور گاؤں ڈاگئی سے تھا،آپ برصغیر کے نامور عالم دین شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید تھے افغان طالبان کی ایک بڑی تعداد آپ کے شاگردوں پر مشتمل تھی، ملا محمد عمر کی درخواست پر آپ افغانستان چلے گئے تھے جہاں سرکاری ریڈیو پر روزانہ لائیو درس قرآن دیا کرتے تھے، جس وقت امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اس وقت بھی مولانا افغانستان میں ہی موجود تھے۔ مولانا رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کو کتابوں میں پڑھا اور اس کی عملی تفسیر ملا عمر کے دور میں افغانستان کے گلی کوچوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
اسامہ تو محض ایک بہانہ تھا امریکہ اور یورپ کو افغانستان کا یہی نظام کھٹک رہا تھا جو اسلام سے جڑا ہوا تھا اسی نظام نے افغانستان کو امن دیا، لوگوں کو خوشحالی دی۔اس نظام کو ختم کرنے کے لئے تانے بانے بنے گئے، سازشیں تیار ہوئیں اور نائن الیون کے بعد امریکہ نے پیشگی حملے کی خودساختہ ڈاکٹرائن پر عمل کرتے افغانستان پر حملہ کردیا ۔ تمام بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے "کروسیڈ" کے نام پر ایک آزاد مسلم ملک پر جنگ مسلط کردی، دنیا کی واحد سپر طاقت نے اپنے چالیس سے زائد نیٹو اور نان نیٹو اتحادیوں کے ساتھ صرف تورا بورا ہی نہیں بلکہ پورے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ لاکھوں بے بناہ انسانوں کا قتل عام کیاگیا۔ افغانستان میں لگائی جانے والی اس آگ سے پورا خطہ دو دہائیوں تک جھلستا رہا۔ اس کی سب سے زیادہ تپش پاکستان کو برداشت کرنا پڑی۔ اس وقت کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف کا فیصلہ" آ بیل مجھے مار" کے مصداق ٹھہرا اور پرائی جنگ ہمارے شہروں، گلی کوچوں تک آئی۔ نام نہاد دہشت گردی کی اس لڑائی میں صرف پاکستان کی سرزمین پر ستر ہزار لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے،سیکڑوں ارب ڈالرز کی املاک کو نقصان پہنچا۔ پاکستان نے اس لڑائی میں فرنٹ مین اتحادی کا کردار تو ادا کیا لیکن نقصان بھی سب سے زیادہ اٹھانا پڑا۔ ہم نے اس لڑائی میں جس کا ساتھ دیا اس نےبھی مارکھائی اور جس کےخلاف ساتھ دیا ہمیں اس نےبھی نہ بخشا۔ مشرف حکومت اور اس کےبعد کے ادوار میں جس طرح ہماری سالمیت کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی،"دشمن"آئے روز خود کش دھماکے کرتا رہا اور "دوست" ڈرون حملے۔
امریکہ کے خلاف اس وقت سب سے توانا آواز شہید اسلام مولانا سمیع الحق نور اللہ مرقدہ کی تھی، جنہیں فادر آف طالبان بھی کہا جاتا تھا کیونکہ امارت اسلامیہ افغانستان کے سربراہ ملا محمد عمر سمیت افغان طالبان کی اکثریت مولانا سمیع الحق شہید کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ (جسے دارالعلوم دیوبند ثانی بھی کہا جاتاہے) سے فارغ التحصیل تھے اور وہ مولانا شہید کا بے حد احترام کرتے تھے۔ راقم الحروف کا مولانا شہید سے محبت اور عقیدت کا دیرینہ تعلق تھا، متعدد نشستوں میں ان سے افغانستان کی صورتحال پر بات ہوئی، وہ ہمیشہ ایک بات بڑے وثوق سے کہا کرتے تھے۔
آپ فرماتے تھے کہ" کنویں سے پانی چاہے جتنا مرضی نکالتے رہو لیکن جب تک کتا نہیں نکالا جائے گا تب تک کنواں پاک نہیں ہوسکتا اور ایک دن کنواں صاف ضرور ہوگا"۔ یہ بات انہوں نے اپنی شہادت سے چند ماہ قبل اس وقت بھی کہی جب وہ دل کے بائی پاس آپریشن کے لئے راولپنڈی کے آرمڈ فورس انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل تھے، اس وقت میں روزنامہ جہان پاکستان سے بطور ایڈیٹر فورم وابستہ تھا، لاہور سے میں اور ہمارے ایگزیکٹو ایڈیٹر اشرف سہیل صاحب مولانا کی عیادت کے لئے پہنچے تھے۔ مولانا شہید کے آپریشن کو چند روز گزر چکے تھے، جس کے بعد وہ تیزی سے بحالی صحت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس نشست میں مولاناشہید نے افغانستان کےحالات بارے بڑی مفصل گفتگو کی۔آج مولاناشہید اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہیں اور جنت کی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھ کو شاداں ہوں گے کہ ان کی بات آج سچ ثابت ہورہی ہے۔ کنواں پاک ہونے جارہا ہے۔ افغانستان آزاد ہورہا ہے۔
آج جب امریکہ اور اس کے اتحادی بھاگ رہے ہیں، تو بہت سے حلقے اضطراب کا شکار ہیں کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟۔ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، افغانستان کا مستقبل اسی نظام سے جڑا سے جو ملا محمد عمر نے نافذ کیا تھا، وہی نظام امن قائم کرسکتا ہے، وہی نظام لوگوں کو خوشحالی سے آشنا کرسکتا ہے۔ آج جس افغان ضلع سے امریکی افواج نکل رہی ہیں وہاں لوگ طالبان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے نظر آتے ہیں۔ افغان فوجی سرنڈر کرکے طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں۔ اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں بیرونی غاصبوں کے انخلا کے بعد بھی جنگ کئی سالوں تک جاری رہیگی اور آخرکار ایک خانہ جنگی ، خطے اور دنیا کے ممالک کے لیے پراکسی وار میں بدل جائیگی، ان کے اندازے غلط ثابت ہوں گے۔
گوکہ افغان عوام کا سیاسی شعور پست رکھنے کے لئے بڑی محنت کی گئی ہے، گذشتہ 20 سالہ دور میں عوام کو تقسیم کرنے، قومی، علاقائی اور لسانی نفرتوں کو ابھانے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے تاہم حالیہ چند ہفتوں کے مشاہدہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ افغان تنازعہ کے دو اہم فریق امارت اسلامیہ کے مجاہدین اور کابل انتظامیہ کی فوجیں بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے تربیت یافتہ فوجی جوق درجوق امارت اسلامیہ کے مجاہدین سے مل کر ان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں، امریکہ اور اس کی کٹھ پتلیوں سے برات کا اعلان کررہے ہیں۔
امریکی صدر جارج بش نے جس جارحیت کو صلیبی جنگ کا عنوان دیا تھا،امریکہ تمام تر طاقت اور وسائل کے باوجود وہ صلیبی جنگ ہار چکا ہے۔ دو دہائیوں پر مشتمل جارحیت میں اسے رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے ، اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔