تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا مقابلہ کیوں ممکن نہیں!
آخر اس نے ایک بٹن سے بھی چھوٹی اور ہلکی چیز 44ارب ڈالر میں کیوں خرید ی؟
کبھی آپ نے سوچا کہ 44بلین ڈالر کتنی بڑی رقم ہے؟ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ دنیا میں موجود کم و بیش آدھے ملکوں کا سالانہ بجٹ اس سے کم ہے۔پاکستان کا پچھلے سال کا بجٹ 45 بلین ڈالر کا تھا۔لیکن آپ اندازہ لگائیں کہ اتنی بھاری رقم سے ایک شخص نے ایک ایسی شے خریدی ہے جس کا وزن ایک ماشہ تک نہیں ہے بلکہ اس کا وزن ہی نہیں ہے جس چیز کا ظاہری وجود ہی نہ ہو آپ اسے دنیا کے کس ترازو پر تولیں گے؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ چیز کیا ہے جس کا وزن ہے اورنہ ہی وجود لیکن پھر بھی وہ اتنی مہنگی ہے کہ توسن لیں وہ چیز ہے ”ٹوئٹر“۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ چیز اتنی مہنگی کیوں ہے؟جواب ہے”ڈیٹا“۔یہ چیز اتنی قیمتی اس لیے ہے کیونکہ یہ انسانوں کی ”ڈیٹا لائبریری“ ہے۔ ڈیٹا اتنا قیمتی کیوں ہے؟ کسی دور میں انسان کو خرید کر غلام بنایا جاتا تھا لیکن پھر یہ سلسلہ ختم ہو گیا اوردور آیا مشینوں کو ہیک کر کے انہیں غلام بنانے کا۔ڈیٹا اسی لیے قیمتی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف انسانوں کو غلام بنایا جا سکتا ہے بلکہ انہیں ہیک بھی کیا جا سکتا ہے۔ایلن مسک نے 44ارب ڈالر میں ان تمام انسانوں کا ڈیٹا خریدا ہے جو ٹوئٹر استعمال کر رہے ہیں۔اسی چیز کو عمران خان سوشل میڈیا کی طاقت کہتے ہیں۔
یہ بات تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ جب آپ فیس بک، یوٹیوب یا گوگل پر ایک آدھ بار کچھ سرچ کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ کی ٹائم لائن پر آپ کی پسند کا ڈیٹا خود بخود آجاتا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ ہے ڈیٹا اور الگوردم کا کمال اور پاورجس کی قیمت 44ارب ڈالر تک ادا کی جا سکتی ہے۔
آپ جب کسی بھی سوشل پلیٹ فارم پر کچھ لائیک کرتے ہیں، شیئر کرتے ہیں یا کامینٹ دیتے ہیں تو آپ کی نفسیاتی پروفائل بن رہی ہوتی ہے جس کے مطابق آپ کو آٹومیٹک طریقے سے وہی مواد فراہم کیا جاتا ہے جو آپ چاہتے ہیں۔کمپیوٹر یا سمارٹ فون کی ہر کلک کی بنیاد پر بننے والی اسی سائیکلوجیکل پروفائل کی مدد سے کسی کو بھی ایسے غلام بنایا جاتا ہے کہ غلام بننے والے کو احساس تک نہیں ہوتا اور اسی ٹول کا استعمال سیاسی جماعتیں بھی کرتی ہیں۔ڈیٹا اور الگوردم سے بننے والی پروفائل کی مدد سے ووٹروں کو یرغمال بنانے کی پہلی صدا ہیلری کلنٹن نے اس وقت بلند کی جب وہ ٹرمپ سے ہار گئیں۔ تمام اخبارات نے اس ٹرمپ کی جیت کو غیر متوقع کہا۔ اس الیکشن سے متعلق روس پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ایک ڈیٹا کمپنی کے ذریعے ایک ایسی مہم چلائی جسے امریکہ کی نصف آبادی نے دیکھا اور یوں ٹرمپ کی جیت کی راہ ہموار ہوئی۔گارڈین اور نیویارک کے رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے ”کیمبرج انیلیٹکا“نامی ایک فرم ہائر کی جس نے فیس بک کے امریکی ووٹر ز کا ڈیٹا چرایا اور ان کی نفسیاتی پروفائل کو سامنے رکھ کر الیکشن مہم کے حوالے سے ایسا ڈیٹا فراہم کیا جس سے ہیلری الیکشن ہار گئی۔اس کے علاوہ بھی متعدد سکینڈل ہیں جن میں صارفین کے ذہنوں کو ڈیٹا کی مدد سے یرغمال بنایا گیا۔
پاکستان میں اسی ٹول کا استعمال تحریک انصاف کر رہی ہے اور یہی پاور تحریک انصاف کا اہم ہتھیار ہے کہ اب اس کے پیروکار اسے ایک ایسا ولی سمجھتے ہیں جو غلطیوں سے پاک آخری آپشن ہے۔وہ اس کی سپیڈ کی لائٹ اور جاپان جرمنی کے متحدہ بارڈر جیسی ”گفتگو“ کا بھی دفاع کرتے ہیں،وہ کہے مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ایمپائر کو نیوٹرل ہونا چاہیے تو پیروکار کہتے ہیں واہ واہ!!! اور وہ کہے کہ میں نے آج تک کوئی غلطی نہیں کی اور نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے تو بھی پیروکار کہتے ہیں واہ واہ!!!بلکہ اس کی خاطر دوست دوست کو قتل کررہے ہیں، زہر پی رہے ہیں اورپاسپورٹ اور پاکستانی پرچم تک جلا رہے ہیں۔میں ذاتی طور ایک ایسے ”پڑھے“ لکھے انسان کو جانتا ہوں جس نے اپنی بیٹی کے لیے آئے کئی اچھے رشتے صرف اس بنیاد پر ٹھکرائے کہ لڑکا عمران خان کو پسند نہیں کرتا تھا۔سوال یہ ہے کہ لوگوں کو یوں کیسے یرغمال بنایا جا سکتا ہے تو جواب ہے ڈیٹا اور الگوردم کی مدد سے بننے والی نفسیاتی پروفائل کو سامنے رکھ کر اور اس میدان میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں تحریک انصاف سے ہزاروں کلومیٹر دور ہیں۔
دور کیوں جائیں آپ امریکی سازش اور خط کے حوالے سے ہی تحریک انصاف کا بیانیہ دیکھ لیں کہ جھوٹا ہونے کے باوجود تحریک انصاف کا بیانیہ اس قدربھاری ہے کہ لوگوں کو یہ تک نظر نہیں آتا کہ عمران خان امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگانے پر کارکنوں کو ڈانٹا ہے، عارف علوی امریکی سفیر کو گارڈ آف آنر دیتا ہے اور عمران خان کے آدھے سے زیادہ ساتھی امریکی شہریت کے حامل ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اس جدید نفسیاتی پروپیگنڈے کا مقابلہ نون لیگ سوشل میڈیا کے روایتی استعمال سے کر رہی ہے جو ممکن نہیں۔عمران خان اسی سوشل میڈیا کی مدد سے ایسا ٹرینڈ سیٹ کرتے ہیں کہ منٹوں میں سچا جھوٹا اور جھوٹا سچا بن جاتا ہے۔نون لیگ کو چاہیے کہ وہ بھی مختلف ڈیٹا کمپنیوں سے رجوع کرے اور لوگوں کو ان کی نفسیات کے مطابق سوشل میڈیا کی مدد سے اپروچ کرے۔۔۔ مقابلہ صرف اسی صورت ممکن ہے۔۔۔ ورنہ تو شاید داستاں تک باقی نہ رہے۔