حکمرانوں کے لئے لمحہءفکریہ
یہ با ت بخو بی معلوم ہے کہ اسلام محض ما بعدا لطبیعی عقیدہ نہیں ،بلکہ وہ زندگی کا ایسا مکمل نظام اور جا مع تصور ہے ، جو اےک منطقی ربط کا حا مل ہے۔ ہم اس کے نظرےا ت کا اےک مختصر خا کہ پیش کر نے کی کو شش کر یں گے ۔ ہم دےکھیں گے کہ وہ ہر بڑے منصوبے کے بعض اجزا سے اتفاق کر تا ہے اور بعض د ےگر حصو ں کو رو کر دیتا ہے ۔ہر منصوبہ کا اس طرح مختصر بےا ن ےہ ظا ہر کر دے گا کہ کو ئی ایسی اہم خرابی نہ تو اس کی بنےا دہی میں مو جو د ہے ےا وہ عواقب جو ناگزیر طو ر پر اس سے رو نما ہو تے ہیں، اسے فا سد کر رہے ہیں۔ اصو ل عدم مداخلت پر مبنی سر ما ےہ داروں نے مجروحرےت اور مساوات کی تبلیع کی، مگر مملکت تنا زع للبقاءمیں غیر جا نبداررہ کر اس کا تدارک نہ کر سکی کہ ظا لمانہ عد م مساوات سر نہ اٹھا نے پا ئے ۔ معا شرے کو جا گیر ی اور شخصی حکومتوں کے ظلم وزےا دتی سے آزادی دلا کر اس نے اےک قسم کی زرخرید غلامی کی تر ویج کی ۔ آ زدانہ معا ہدے اور آزادارئے کا حق بے سو د ثا بت ہوا ۔ سےا سی عمو میت معا شی غلامی کے سا تھ متحد ہو گئی۔ انگلستان اور امر ےکہ جیسے مما لک میں سر ما ےہ دارانہ جما عت نے ان خرا بیوں کو رفتہ رفتہ دور کرنے کی اےسی کو شش کیں، جو مشکلا ت اور دشو ا رےا ں اس نظام کے مزاج سے رو نما ہو تی ہیں، وہ معا شر تی انتشاروتشتت پیدا کر تی ہیں۔
اسلام حر ےت ، اخو ت اور مسا وات پر مبنی دین ہے اور اس کا فلسفیا نہ نقطہ نگاہ خدا پر ستا نہ ہے۔ زندگی کے تما م فلسفے اور وجود سے متعلق اسا سی اندازے زبر دست عملی نتائج رکھتے ہیں۔ راسخ الا عتقا د اشتما لیت کا فلسفہ ما دہ پرستانہ اور طحدانہ ہے۔ اس کے بر عکس اسلا م ےہ اعتقاد رکھتا ہے کہ زندگی اےک رو حا نی ما خذ ، اےک روحا نی منظر ، اےک روحانی مطمحِ نظر اور مقصد رکھتی ہے۔ کا ئنا ت پر بے بصر میکانکی قوتوں کی کا ر فرما ئی نہیں ہے اور نہ وہ محض ما دہ پر ستا نہ جدلیات کے تا بع ہیں۔ زندگی اےک ما دی اسا س بھی رکھتی ہے اور اس کی اس حیثیت کو اسلام نظر انداز نہیں کر تا ۔ ےہ اس حقیقت سے با خبر ہے کہ انسان کو روحانی طو ر پر آزاد رکھنے کی خا طر اسے ما دی خو شحا لی کا ےقین دلا ےا جا ئے۔ اےک مہر با ن ، ہمہ داں اور ہمہ تواں ہستی کی تخلیق کر دہ کا ئنا ت اخلاق سے بے تعلق نہیں ہے ،بلکہ وہ قطعاََ خیر و خو بی ہے، جس کے طریقہ ہا ئے عمل چند دائمی اقدا ر کو و جو د بخشتے ہیں۔
روح اور جسم کے درمےان ےا دنیا اور آ خرت میں کو ئی تنا قض نہیں.... چو نکہ خدا اےک ہے، اس لئے جملہ مو جو دات باہم مربوط ہیں۔ مسلمانوں کو دوسری دےنا کی خو شحالی سے قبل اس دنےا کی خو شحا لی کے لئے دعا کر نے کا حکم دےا گےا ہے۔ اخلا قی علت و معلو م ےہا ں اس دنےا میں جس طر ح اپنے اثر ا ت متر تب کر تے ہیں۔ ایسے ہی وہ اپنے اس عمل کو آ خر ت میںجا ری رکھیں گے ۔ اشتما لیت تخلیق کے منجانب اللہ ہو نے کی تر وید کر تا ہے۔ اس کی تما م تا ریخ انسا نیت کی تشر یح ، تما م مادی مظا ہر کی طر ح سراسر ما دہ پرستی پر مبنی ہے۔ صر ف پیدائش دولت کے طر یقے اخلاقی، مذہبی اور تہذیبی اقدا د پیدا کر تے ہیں۔ تا ریخ کی قر آنی تشر یح بالکل اس کے بر عکس ہے۔ وہ دعویٰ کے ساتھ کہتا ہے کہ قومو ں کا عر وج و زوال قو م کے اعتقا دات اور سیر تو ں میں تبد یلیوں کے سبب ہو تا ہے۔ اور اسلام ےہ ےقین ر کھتا ہے کہ بصیر ت سے محر و می کے با عث قو تیں تبا ہ ہو جا تی ہےں۔ قر آن کی رو سے حقیقی انقلاب کسی قو م کی زندگی میں واقع نہیں ہو تا ،جب تک کہ اس کے اخلا قی اور ذہنی نقطہ نگاہ میں تبد یلی نہیں ہو تی ....خد ا کسی قو م کی زند گی میںاس و قت تک تبد یلی پید ا نہیں کر تا ،جب تک کہ ان کے نفو س کے انداز بد ل نہیں جاتے.... (انفال ۔ 53)
قر آن ما دی طو ر پر خو شحا ل قو مو ں کی مثا لیں پیش کرتا ہے ، جو مادہ پر ستا نہ تنگ نظر ی کے سبب تبا ہ ہو گئیں۔ قانون اخلا ق کے ابدی حقا یق پر ایما ن نہ لا ئے سے وہ خودغرض اور ظا لم بن گئیں ۔ انہیں اصلا ح کے لئے بڑی بڑی مہلتیں دی گئیں ، لیکن جب انہوں نے خدا کی نشانیوں کی پر وا نہ کی ، تو سزا کا دن ان پرآن پہنچا اور وہ تبا ہ ہو گئیں ۔ خدا نے خیر و شر کی مےزان قا ئم کی ہے۔ےہ میزان ایسی حسا س ہے کہ ہر ذرہ اس میںوزن کیا جاتا ہے.... اور جس کا نتیجہ اپنے وقت پر ظا ہر ہو تا ہے۔ تا ریخ کا اسلا می نظر ےا ت کلی طو ر پر با ہم ایسے متخا لف ہیں کہ اےک خدا پر ست مسلما ن کے لئے ما ر کسی ، اشتما لی بننا نا ممکن ہے۔
فا شستوں نے محض پیدائیش دولت اور مسا و ےا نہ تقسیم کی پرستش کو مملکت کی پر ستش سے مبد ل کر دےا۔ مملکت کی پر ستش بجز بڑے پیما نہ پر قبا ئلیت کے ، جو دورو حشت کی تہذیب کی ےا د گار ہے اور کچھ نہیں ، غلط ےا صحیح جو کچھ بھی ہو میرا و طن ہے۔ فا شیت اےک طا قتور مملکت کی تعمیر چا ہتی ہے۔ اور بطور فوق الفردہستی کے مملکت کی پرستش کی تلقین کرتی ہے ۔اسلام بھی ایک طاقت ور مملکت کی تعمیر کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔جو قوم کے اساسی حقوق کا تحفظ کرے۔بیرونی حملہ آوروں سے اپنا بچاﺅ کرے اور طاقت ور کی ظلم و زیادتی سے کمزور کی حفاظت کرے ۔ اسلام ایک اجتماعی اور سیاسی مذہب ہے ۔اور اسلام کے تما م آئین و دستور کا تعلق معاشرتی عدل و اتحاد سے ہے، تاہم مملکت یا اس کے قائدین اور حکمرانوں کی غیر مشروط اطاعت واجب نہیں ہے ۔قانون اور نظم و ضبط کی خاطر بالا دستوں کی اطاعت کی تعلیم دی گی ہے ، لیکن یہ اطاعت ہمیشہ احکام کے اخلاقی ہونے پر مشروط ہے ۔
اسلام کا اسا سی اصول ہے۔ صد ر حکو مت تک کے اعمال و احکا م پر اےک ادنیٰ ترین با شندئہ ملک بر سر عام نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک قا نو ن کی نظر میں سب برابر ہیں۔ خو د آنحضر ت ﷺنے لو گوں سے ار شا د فرمایا کہ اگر آ پ نے نا دا نستہ کسی کو نقصان پہنچا ےا ہے تو وہ اپنے انتقام کا حق خو د آپ کے خلا ف استعمال کر سکتا ہے۔ فاروق اعظمؓ اور حضر ت علیؓ با ر ہا بلا رورعا یت داد خو ا ہی کے لئے عدا لت میں بحیثیت مد عی اور عا علیہ کے حا ضر ہو چکے ہیں۔ اسلام شوریٰ کے ذریعے حکو مت کی تعلیم دیتا ہے۔ آنحضر ت ﷺتقریباََ ہر روز معا ملا ت حکو مت میں اپنے اصحا ب سے مشورہ فر ما ےا کر تے تھے۔ قر آ ن مسلما نوں کے اوصاف حُسنہ ہی سے بطو ر خو بی کے اس وصف کا اظہا ر کر تا ہے۔ اور وہ مستبداور آمر نہیں ہو تے، بلکہ اجتما عی اہمیت کے تما م معا ملا ت با ہمی مشورہ سے طے کر تے ہیں۔
قر آن میں مسلما نو ںکو امت وسطی کا خطا ب دےا گیا ہے، جو انتہا ﺅں میں ہمیشہ خیر ا لا مورا و سطہا پر عمل کر تے ہیں۔ ےہ ےو نا نےو ں کے نظر ےہ حےا ت کے مشا بہ ہے۔ جن کا قول تھا کہ زےا دتی میں کچھ بھی نہیں۔ خیر ا لا مو را و سطہا کا اصول ارسطا طا لیسی اخلا قےا ت میں محو ری نقطہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی ےہ خصو صیت اس کی تمام تعلیما ت اور عمل میں جا ری ہے۔ اسلام کی جملہ اخلا قےا ت عملی اخلاقےات ہے۔ جس نے رینان کو ےہ کہنے پر مجبو ر کےا کہ اسلا م بنی نو ع انسان کا مذہب ہے۔ فر شتوں کے لئے نہیں ہے۔ ہر حکم میں انسان کی اصل فطر ت کو مع اس کی تمام جبلتوں اور خوا ہشا ت کے ملحوظ رکھا گیا ہے۔ وجدانات اور جذ با ت زندگی کے لئے بطو ر آلا ت کے ہیں۔ ےہ نظم و ضبط میں لا نے کے لئے ہیں۔ فنا کر نے کے لئے نہیں۔ آ نحضر ت ﷺ کے اےک صحا بی نے اپنے رنج وا فسو س کا اظہا ر ان الفا ظ میں کیا تھا ۔:
جب مَیں آ پ کی صحبت میں رہتا ہوں ہو میرا اخلاقی رنگ نہا یت بلند و بر تر رہتا ہے۔ بلند خےا لا ت اور معیا رات میر ی شعو ر یت میں جا ری و سا ری رہتے ہیں ، لیکن جب مَیں آپ سے دور رہتا ہو ں تو میری اخلا قی سطح ےکا ےک پست ہو جا تی ہے۔ مَیں اپنی حا لت پر کس قدر افسوس کر تا ہو ں ۔
یہ سن کر آنحضر ت ﷺ نے فر ما ےا تم کو ما ےو س اور پست ہمت نہ ہو نا چا ہیے۔ تم انسان ہو ، فر شتہ نہیں۔ اگر خدا ےہ چا ہتا کہ دنےا کو ایسی ہستیوں سے آبا د کر ے، جو اخلاقی کشمکش سے آ زاد ہوں،تو ملا ئکہ کو ےہا ں بسا تا ، لیکن اس نے ایسا نہیں چا ہا، تمہا ری اخلا قی پشیما نی اور بلند ی اور پستی کا احسا س ایما ن کی علا مت ہے۔ ےہ سن کر صحا بی کو اطمینا ن حا صل ہوا۔
انسانی اصلاح و تر قی کے بعض عظیم پر و گر اموں کا خاکہ مختلف اقوام کے حالیہ مفکر ین ، قا ئد ین مصلحین نے کھینچا ہے۔ ان اصلا حی تجا و یز میں سے ہر اےک میں چند ایسے اصو ل ہیں،جو اسلا می غیبیا ت کے اجزا ہیں ، لیکن ان سب میں جز وی صدا قتوں پر دروغ بےا نی کی حد تک مبالغہ آمیز ی کی گئی ہے۔ دیگر اجزا کے اخفا ءکے سا تھ چند اجزا پر متشددانہ تا کید نے انھیں بحیثیت مجمو عی زند گی کے ساتھ سلو ک میں نا کا م و خا سر رکھا ہے۔ حر یت پسند عمومیت میںبہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اسلام کی جزو لاینفک ہیں ہر ایک کو مساوی موقع ملنے اورقانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے کی تعلیم اسلام نے دی، لیکن نسلی اور قومی تعصبات حریت پسند عمومیت کے عقائد و اعمال کو اب تک فاسد کر رہے ہیں ۔اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ کافی حریت پسندانہ نہیں ہے ۔ نہ اسلام اس کے سرمایہ درانہ نظام کی تائید کر سکتا ہے ، جس میں سود کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔دنیا کے حاشیہِ خیال میں آنے سے قبل اسلام نے تمام علوم کو آزادی کے ساتھ آزادی تقریر اور آزادی ضمیر کی تعلیم دی ۔دین میں کوئی جبرواکراہ نہیں ہے ۔یہ قرآن پاک کے اساسی اصولوں میں سے ایک ہے۔ مغربی عمومیت شہری حقوق میں باشندوں کی مساوات کے اسلامی حکم کو تسلیم کرتی ہے ، لیکن وہ باشندوں کی اکثریتوں اور اقلیتوں میں تقسیم کو ضروری اور مخالف جماعتوں کے وجود کو لازمی سمجھتی ہے ۔جن کا خاص مقصد حکومت کے معاملات میں تقریباّّ ہر چیز کی مخالفت کرنا ہوتا ہے۔ یہ مخالفت صرف مخالفت کی خاطر کی جاتی ہے۔جس کا معین مقصد بے اعتبار کرنا اور بر سر اقتدار جماعت کو بالا آخر بے دخل کرنا ہے ۔ اشتمالیتوں اور فاشسٹوں دونوں نے انتخابی جماعتوں کی سر پھٹول کو ترک کر دیا اور صرف ایک کار فرما جماعت قائم کی جو افراد یا جماعتوں کی طرف سے کسی قسم کی مخالفت برداشت نہ کیا کریں اسلام کا سارا رحجان ان دونوں متبادل صورتوں کے خلاف ہے۔ ایک جماعت کی حکومت باشندوں کے آزادانہ احساسات کے اظہار کو سلب کر لیتی ہے۔ ایسی یک جماعتی حکومتوں میں فرد کے لئے کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی۔ اس کو یا تو جماعت کے احکام کی موافقت کرنی پڑتی ہے ۔ یا اپنے ضروری حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ۔ اسی طرح حریت پسند عمومیتوں کی جماعتی سیاسیات کے اقتدار کی جدوجہد میں صداقت اور عام خوشحالی بر طرف ہو جاتی یا نہایت ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ۔ہر پارلیمان میں قوم کے نمائندوں کی گروہ بندی ہوتی ہے ۔ایک آزاد انسان پابند بن جاتا ہے اس طریقہ میں ایک آزاد خیال انسان اگر کبھی وہ منتخب بھی ہو جائے تو نکما سمجھا جاتا ہے ،کیونکہ کوئی جماعت اس پر اعتماد نہیں کر سکتی ۔ سچی اسلامی مجلس شوریٰ جیسا کہ حضرت عمرؓ اکثر طلب فرمایا کرتے تھے ۔اصحاب فہم و کردار بغیر کسی آمرانہ جماعت کو ترتیب دے یا اکثریت اور اقلیت میں منقسم ہوئے ۔باہم مجتمع ہوا کرتے تھے ۔اگر کوئی اسلامی مملکت مجالس یا مشاورتی جماعتوں کو مخصوص یا عام مسائل کے حل کرنے کے لئے طلب کرے تو ہر رکن ایک آزاد رکن ہونا چاہیے جو خاص علاقوں یا خاص مفادات کی نمائندگی کرے، جو کسی پارٹی کے طریقے پر منتخب نہ ہوا ہو اس کا انتخاب اس کے علم اور قابلیت کی بنا پر ہوا ہو ۔
اسلامی مملکت ، فا شسٹی مملکت کے پیش نامے کے بعض اجزاءکی اس کے جملہ تصورا ت کی تا ئید کئے بغیر تو ثیق کر تی ہے۔ فا شسٹ قو م کو اےک عضوی کل میں ڈھا لنا چاہتی ہے، جس میں مفا د کی خا طر لڑا ئیوں کو اتنا کھل کھیلنے کا مو قع نہ دےا جا ئے جس سے قو می یگا نگت کو نقصا ن پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ اس میں ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کیا جا تا ہے، لیکن آ جر و ا جیر کے تما م حقو ق ملکیت کی پو ری نگرانی اور اختیا ر میں ہو تے ہیں۔فا شسٹی پیش نا مہ میں بہت کچھ ایسی چیزیں ہیں جو قابل تعر یف ہیں ، لیکن فاشسٹی مملکت کا اصلی محر ک فا سد ہے۔ اس مملکت کا قےا م نسلی ےا قو می اسا س پر ہو ا ہے۔ مملکت اےک مو ضو ع پر ستش بن گئی ہے۔ جو خو د اپنی اےک زندگی افراد کی زند گیوں کے علاوہ رکھتی ہے۔ ےہ ما بعد الطبیعی اور افسا نو ی و جو د کسی قسم کے اخلا قی مقا صد نہیں رکھتا ۔ فرد کی اخلا قیت کا اس پر انطباق نہیں ہو تا ۔ مملکت کا مقصد طا قت اور عظمت کو برقرار رکھنا اور با شندوں کو بے چون و چرا اور پر اسرا ر اطاعت کی تعلیم دینا ہو تاہے۔ بین الا قو امیت سے احتر از کیا جا تا ہے ۔ عا لم انسا نیت اےک بے حقیقت چیز سمجھی جا تی ہے اور اس کے لئے کو ششیں منا فقت سے مو سوم کی جا تی ہے۔ فا شسٹ کی رو سے قو می جما عتوں میں حےا ت تنازع للبقا ہو تی ہے جو بر تر قو ت کے ذر یعے بقا کے سوا اور کو ئی قانون تسلیم نہیں کر تی۔ اس کے لئے جنگ کے لئے تےا ر رہنا ہر مملکت کا اولین فر ض ہے اور امن پسند ی ذلیل و خوار لوگوں کا مذ ہب و ایما ن ہے جبری ہم آہنگی کے طر یقوں کو جا دی کر کے قو م کے اندرونی تضادات کو رفع کر نے کے بعد ےہ مختلف مملکتو ں کے درمےان آ و یز شوں کی حو صلہ افزائی کر تی ہے۔ جیسے ےک جما عتی آ مر یت کی بنا قو ت ہے، ایسے ہی فا شسٹی مملکت کا اسا سی تصو ر تصا دم ہے۔ اسلام نسلی ےا قو می حد بند ےوں کو اہم اور قطعی تسلیم نہیں کر تااور جملہ بین الا قوا می مسا عی امن کی ہمت افزائی کر تا ہے۔ ان تما م مبا دےا ت وا صو ل کی اسا س پر جو مختلف مذا ہب ےا قو می جماعتوں میں با ہم مشتر ک ہیں۔ ان کے ذریعہ پر امن تعاون عمل پر بڑا زور دےا گےا ہے۔ قرآن میں ےہو دےوں اور عیسا ئیوں کو ان چیز وںکی طرف جو ان میں با ہم مشتر ک ہیں مسلما نوں کے سا تھ تعا ون عمل کی دعوت دی گئی ہے۔ ٭