اپنی تاریخ سے اجنبی قوم (1)

اپنی تاریخ سے اجنبی قوم (1)
اپنی تاریخ سے اجنبی قوم (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگر ہم پاکستان کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ہندوستان میں اسلامی حکومتوں کے متعلق اپنے ناروا خیالات کا ازالہ کرنا ہو گا۔ ہندوستان میں اسلامی عہد کی تاریخ کو صحیح طور پر سمجھے بغیر ہم اس مسئلے پر کوئی سیر حاصل گفتگو نہ کر سکیں گے۔لارڈ تھامس میکالے نے ہندوستان میں چار سال (1834-1838ئ) قیام کیا۔ اپنے اس قیام کے بعد جب وہ برطانیہ واپس پہنچا تو اُس نے ہاﺅس آف لارڈز میں 2 فروری 1835ءکو یہ تقریر کی: ” مَیں نے ہندوستان کے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک پالکی میں بیٹھ کر سفر کیا ہے۔ اس سفر کے دوران مجھے سارے ہندوستان میں نہ تو کوئی فقیر ملا اور نہ ہی کوئی چور۔ مَیں نے ہندوستان کے مال و دولت اور اس کے باشندوں کی بے پناہ قابلیت اور اعلیٰ اخلاق کا مشاہدہ کیا۔ میرے خیال میں ہم اس ملک کو کبھی بھی فتح نہیں کر سکیں گے۔ اگر ہم نے اس ملک کو فتح کرنا ہے تو ہمیں اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنا پڑے گا جو اس کا روحانی اور ثقافتی ورثہ ہے، چنانچہ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ ہم ان کے قدیم نظام تعلیم اور تمدن کو کلی طور پر بدل دیں۔ یہاں تک کہ ہندوستانی یہ محسوس کرنے لگیں کہ غیر ملکیوں کی ثقافت اور اُن کی انگریزی زبان ہماری ثقافت اور زبان سے بہتر ہے۔ اس طرح وہ اپنا وقار، عزت نفس اور ثقافت کو کھو دیں گے۔ جب یہ ہو گا تو ہم اُن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ڈھال لیں گے اور وہ حقیقتاً ایک غلام قوم بن جائے گی“۔
فرنگیوں کے اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سر سید احمد خان نے بے مثل کردار ادا کیا، جس کا اندازہ آپ اُن کے ان خیالات سے لگا سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا لارڈ میکالے کی تقریر کے فقط 34 سال بعد سر سید احمد خان علی گڑھ کی سائنٹیفک سوسائٹی کے سیکرٹری کو لندن سے اپنے خط مورخہ 15 اکتوبر 1869 میں رقمطراز ہیں: ”انگریزوں کی خوشامد کئے بغیر، مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہندوستان کے باشندے، خواہ ان کا تعلق اونچے درجے سے ہو یا نچلے درجے سے، سوداگر اور چھوٹے دکاندار، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ، جب اُن کا موازنہ انگریزوں سے اُن کی تعلیم، اخلاق اور حق گوئی میں کریں، تو انگریزوں کی قابلیت اور وجاہت کے مقابلے میں ہندوستانیوں کی حالت ایسے ہی ہے، جیسے ایک گندے جانور کی“۔
یقین نہیں آتا کہ ہندوستانی قوم صرف 34 سال میں گندگی کے جوہڑ میں گر جائے گی۔ 1835ءمیں تو لارڈ میکالے ہندوستانیوں کو ایک نہایت اعلیٰ و ارفع قوم گردانتا ہے، جبکہ ہمارے اپنے ممدوح سر سید احمد خان 1869ءمیں ان پر ذلت اور خواری کا لیبل لگا رہے ہیں۔ سر سید احمد نے اگر کوئی سیاسی سبق دیا تھا تو وہ یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند اپنی زبان اور عمل سے انگریز حکمرانوں کو یہ یقین دلا دیں کہ وہ اُن کی وفادار رعیت ہیں۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزوں کی اطاعت کا سبق دیا۔ اُنہوں نے ہندی مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ نوکریوں اور مراعات کے لئے انگریزوں سے التجا کریں، بطور حق نہ مانگیں، جیسے اُن کی زندگی کا مقصد بس ان قلیل مادی مراعات کے سوا اور کچھ بھی نہ ہو۔ سر سید کو انگریزوں اور انگریزی زبان سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اپنے سب بچوں کے نام بھی انگریزوں کے ناموں پر رکھنا چاہتے تھے۔ اُن کو افسوس یہ تھا کہ وہ فقط اپنے ایک پوتے، سر راس مسعود، کو ہی انگریزی نام دے سکے۔
مقام حیرت ہے کہ کس طرح دس کروڑ جنگجو، جہادی مسلمانوں پر مشتمل قوم،جس نے 800سال تک ہندوستان پر بلا خوف اور بلا شرکت غیرے حکومت کی تھی، ایک دم خوفزدہ اقلیت میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ بے شک مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت تھے، مگر وہ ایک کمزور اقلیت نہیں تھے اور ہندوستان کے شمالی صوبہ جات میں اکثریت میں تھے اور ان کی حیثیت ہندوستانی فوج اور پولیس میں ریڑھ کی ہڈی کی سی تھی۔ کتنی درد ناک بات ہے کہ آج تک ہم سر سید احمد خان کی دی ہوئی عقلی و مادہ پرستانہ تعلیمات کو نہیں بھولے۔ یہ اُنہی کی تعلیمات کا ہی اثر تھا کہ ہم نے اپنی تحریک آزادی کی جدوجہد کی زمام بھی فرنگی پرست اشرافیہ کے طبقے کے حوالے کر دی، جو آج تک ہم پر مسلط ہیں اور ہم قیادت کی شمع اصحاب علم و فہم کے حوالے نہیں کر پائے۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بقول ہندوﺅں کی عددی اکثریت کا خوف ہی مطالبہ پاکستان کی بنیادی وجہ تھی، جبکہ اسلام کے نعروں کی ضروری، مگر ثانوی حیثیت تھی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان کی بقا ہندوﺅں کے خوف اور نفرت و اسلام کے نعروں پر ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج کل نفاذ اسلام کے بلند بانگ نعرے بلند کرنے والے تقریباً سارے کے سارے علماءقیام پاکستان کے مخالف تھے۔ سوال یہ سر اُٹھاتا ہے کہ اگر ہندو کا خوف ہی تخلیق پاکستان کی بنیادی وجہ تھا تو پھر مسلمانوں کی ایک کمزور اقلیت کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑنا کہاں کی عقل مندی تھی۔ اسلام کی ابدی حکمت نفرت پر نہیں، عالمگیر اخوت انسانی اور محبت کی فراوانی پر مبنی ہے:
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
(بانگ درا)
افغانستان میں وسیع علاقوں پر اتنا لمبا عرصہ قائم رہنے والے قتل و غارت اور دنگا و فساد کے بعد جب 2002ءمیں کابل میں لویہ¿ جرگہ منعقد ہوا تو افغان قائدین نے یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے ہیرو کون ہیں؟ بے شک ایک زندہ قوم کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کے ہیرو کون ہیں،جہاں تک ہمارا اپنا تعلق ہے، ہم حقیقت کو پانے سے قاصر رہ جاتے ہیں، کیونکہ ہمارا رویہ ظاہر پرستی اور گہرائی میں نہ جانے کا ہے، چنانچہ قومی سطح پر ہمیں اپنے ہیروز کا صحیح شعور نہیں ہوتا۔ سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ پر مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور پھر ان کے نئے ملک کو چلانے کے لئے علی گڑھ کے ذریعے ایک بیوروکریسی کا بھی بندوبست کر دیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بیوروکریٹ عموماً سر سید احمد کے مداح ہیں، جبکہ اسلام کی طرف مائل عوام انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔
قومی اصلاح کے لئے ہمارے ہم وطنوں کے اُٹھائے ہوئے پُرعزم اقدام بار بار زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکے ہیں۔ موجودہ حالات میں ایک عام شہری کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے اور وہ بے بسی کے عالم میں کسی نجات دہندہ ، مہدی یامسیحا کے ظہور کا منتظر ہے۔ عسکری قیادت کی لائی ہوئی تبدیلیوں کا پر اشتیاق استقبال کرنے کے بعد عوام ہر بار انقلاب کے ظہور سے ناامید ہو کر دل شکستگی اور نفسیاتی پژمردگی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ملک کے اکابرین اور دانشور استحکام پاکستان کے لئے متنوع انواع کی تجویزیں اور لائحہ عمل تشکیل کر رہے ہیں۔ آج کل ان میں ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ مسائل گمبھیر ہیں اور وقت بہت کم۔ بے۱شک ان کی یہ کوششیں قابل تحسین ہیں، مگر ان سب میں ایک ہی کمی پائی جاتی ہے اور وہ ہے کہ ہمارے سب مصلحین کی توجہ فروعی مسائل اور زمینی مشکلات پر مرکوز رہتی ہے، جبکہ حقیقی مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ شاید اس بنیادی غلطی کی وجہ سے قومی اصلاح کا کوئی لائحہ عمل متوقع نتائج برآمد کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ بقول حضرت سعدیؒ:
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
ہندوستان میں سول سوسائٹی کی بے لوث خدمات کی وجہ سے ایک خوشنما اسلامی معاشرہ قائم ہو گیا تھا۔ صد افسوس ہمارے تعلیم یافتہ افراد کو بھی ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا شعور نہیں ہے۔ ابھی چند روز ہوئے ایک نامور صحافی فرمانے لگے کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں یونیورسٹیاں قائم نہیں کیں۔
مَیں نے انہیں جواب دیا کہ حضرت! بے شک ہندوستان میں مسلمانوں نے ایسی یونیورسٹیاں قائم نہیں کیں، جہاں سے طالب علم نقل مار کر بی۔ اے کی سند لے لیں اور نامور اشخاص بغیر کسی امتحان کے نقلی اسناد حاصل کر لیں۔
 مسلمانوں کے دور کے علمی معیار کے متعلق ان کو میں نے یہ مثال دی: بادشاہ شاہجہان کے عہد میں مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاﺅں ہریانہ کی مسجد میں ایک یتیم طالب علم تعلیم کے لئے آیا۔ مسجد کے معلم نے اس لڑکے کی کفالت ہریانہ کے رانا صاحب کے ذمہ لگا دی۔ یہ لڑکا پانچ سال تک وہاں تعلیم حاصل کر کے اس قابل ہو گیا کہ سیالکوٹ کے مشہور زمانہ مدرسے میں اس کو داخلہ مل گیا، جس درجے میں وہ داخل ہوا، اس میں اس کے جو ہم جماعت تھے جو بعد میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی اور احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے ناموں سے مشہور زمانہ ہوئے۔یہ یتیم لڑکا سیالکوٹ سے فارغ ہو کر ملازمت کے لئے دہلی میں بادشاہ کے دربار میں پہنچا جہاں پر اسے شاہی مرغیوں کی دیکھ بھال کے لئے متعین کر دیا گیا۔ اپنی محنت اور اعلیٰ کارگزاری کی بنا پر یہ لڑکا مسلسل ترقی کرتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک دن نواب سعداللہ خان وزیر اعظم سلطنت مغلیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اسی زمانے میں علما ءکا ایک وفد ایران گیا۔ دستور کے مطابق ایک خفیہ اہلکار بھی اس وفد میں شامل تھا۔ اس کی رپورٹ کے مطابق وفد سے ایک سوال پوچھا گیا، جس کا وہ خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ یہ معاملہ جب بادشاہ کے علم میں لایا گیا تو وزیراعظم نواب سعداللہ خان نے وہی سوال ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کو لکھ بھیجا اور انہوں نے دو صفحات پر اس کا جواب لکھ بھیجا جس کو پڑھ کر ایران کے علما دنگ رہ گئے۔ اس داستان سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں:
(1) ہندوستان کے مسلم عہد میں سب حکومتی فیصلے عدل و انصاف اور اہلیت کی بنا پر کئے جاتے تھے اور ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا تھا، جس میں ایک یتیم لڑکا اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائے۔
 (2) ہندوستان کے مسلم عہد میں علم و فضل کا معیار نہایت ہی اعلیٰ اور کسی دوسرے مسلمان ملک سے کم نہیں تھا۔
(جاری ہے)  ٭

مزید :

کالم -