آئی جی موٹرویز سے چبھتے ہوئے سوالات
اتوار 25مئی کو محترم چودھری ذوالفقار علی چیمہ انسپکٹر جنرل موٹروے ٹیک کلب میں خطاب کے لئے تشریف لائے۔ ان کی ایک ایماندار پولیس افسر کی شہرت کی بناءپر حاضری غیر معمولی تھی، جس کا انہوں نے اپنے خطاب میں تذکرہ بھی کیا، اس سے مجھے یہ محسوس کرکے خوشی ہوئی کہ اس ملک کے شہری خود خواہ ہر طرح کی بدعنوانیوں میں ملوث ہوں، معاشرے میں کسی نیک بخت شخصیت سے اگر غیر معمولی نیکی کا رویہ ظاہر ہو تو یہ سوسائٹی اس کی عزت افزائی اور اس کی غیر معمولی پذیرائی اور تعریف و توصیف میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی۔گوجرانوالہ میں بھتے کے لئے صنعتکاروں اور بڑے کاروباری شخصیات کے عزیزوں کو بھاری رقوم بطور بھتہ کی وصولی کے لئے اغوا نے وبا کی صورت اختیار کی تو موصوف نے جس جرات اور مردانگی کا مظاہرہ کیا اور کاروباری طبقے کے جان و مال کے خوف سے وسیع پیمانے پر یورپی ممالک میں ترک وطن میں رکاوٹ کا باعث بنے اور اس پر خوب داد پائی اور بار بار تالیوں کی گونج سے وہ بجا طور پر مسرور دکھائی دیئے۔
مَیں نے ان کا دیرینہ مداح ہونے کے باوجود تالی بجانے سے گریز کیا۔جب ان کے خطاب کے بعد سوالوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مَیں اُٹھا اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مَیں نے اپنی کتاب ”صبح کرنا شام کا“ آپ کو ٹی سی ایس کے ذریعے بھیجی تھی۔کیا وہ آپ کو مل گئی تھی؟ انہوں نے فرمایا ہاں مل گئی تھی۔ مَیں نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ مَیں نے آپ کے خطاب پر شعوری طور پر ایک بار بھی تالی نہیں بجائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے پورے ملک میں امن عامہ کی ناگفتہ بہ حالت کے باوجود خصوصاً آپ نے شہر لاہور ،جہاں پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں بنفس نفیس موجود اور رہائش پذیر ہیں کہ اگر کسی شہری کی چار پانچ سال کی بچی کے ساتھ مجرمانہ زیادتی کا واقعہ ہو جائے تو یا تو بڑے الیکٹرانک میڈیا میں جب تک چیخ و پکار بلند نہ کی جائے یا گورنمنٹ ہاﺅس کے باہر مظاہر نہ ہو، پرچہدرج نہیں ہوتا۔آپ نے پیشہ ورانہ عصبیت کا مظاہرہ کیا اور صوبے میں پولیس کی کارکردگی کی تعریف کی۔
میرے نزدیک پیشہ ورانہ عصبیت بھی عصبیت جاہلیہ ہے۔میرے سوال کا وہ صحیح طور پر ادراک نہ کر سکے اور اس رویے کی تردید کی۔مَیں نے ان سے یہ بات بھی دریافت کی کہ قرارداد مقاصد پاس ہونے کے بعد حکومت پاکستان نے ہر تھانے میں ایک ایسے خطیب کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو پولیس کو قرآن و حدیث کو باترجمہ پڑھا سکے اور ان خطیبوں کی تعیناتیاں بھی ہوئیں۔کیا آپ بتا سکیں گے کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوا۔میرا دوسرا سوال ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس رولز میں ترمیم کرکے آپریشن اور تفتیش کے لئے پولیس افسران کی علیحدہ علیحدہ تعیناتیاں ہوئیں۔کیا یہ نظام دہری رشوت کا باعث نہیں بن چکا۔مزید برآں کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ ایف آئی آر تو ایک پبلک ڈاکومنٹ ہے۔ہمارے ملک میں بعض سنگین وارداتوں کے بارے میں ،جس میں اشرافیہ کی بڑی بڑی شخصیات ملوث ہوتی ہیں ایف آئی آر سیل کرنے کی بات کیوں کی جاتی ہے۔کیا یہ قانونی ہے۔ ابھی وہ صرف پولیس کی تعریف کے بارے میں بھی یعنی پیشہ ورانہ عصبیت کا پورا جواب بھی نہ دے سکے تھے کہ ٹیک کلب پر قابض قصیدہ خوانوں نے انہیں پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے کی تقریب شروع کردی اور پھر ان کے گردگھیرا ڈال لیا کہ کوئی اور ان سے بات بھی نہ کر سکے۔
میں اس بات کا اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ موٹروے پولیس سو فیصد ایماندار ہے ،وہ بڑی سے بڑی سیاسی شخصیت یا صاحب اقتدار افراد کا کوئی لحاظ نہیں کرتی۔مَیں نے جو اپنی لاعلمی کی بنیاد پر سکھیکی کے قیام و طعام کے بارے میں ناگفتہ بہ حالت کا ذکر کیا،وہ بھی کم علمی کی بنیاد پر تھا، جس کے لئے مَیں ان سے معذرت خواہ ہوں۔مَیں اس دعا کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو چشم بینا عطا فرمائے اور وہ ظلم کی چکی میں پسے ہوئے بے کس عوام کو طاغوتی طاقتوں اور جاگیرداروں کے مظالم سے نجات دلانے کی طرف توجہ دیں۔
گفتند کہ جہانِ ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن