عدالت اور سیاست

عدالت اور سیاست
 عدالت اور سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عدالت کو سیاست سے اور سیاست کو عدالت سے باہر رہنا چاہئے، تما م مہذب معاشروں کی یہی روایت اور عادت ہے، مگر اس کا کیا علاج ہے کہ ایسے تمام مقدمات جن کا تعلق سیاست دانوں سے ہوتا ہے وہ چاہے ذاتی ہوں، مالی ہوں یا انتظامی، سب کے سب سیاسی ہی بن جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر عدالتیں ماضی میں انصاف کرتیں تو ان کی ساکھ میں اضافہ ہوتا مگر ہر غیر آئینی اقتدار کو جائزیت عطا کرنے والی عدالتوں کو اپنی ساکھ بنانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرناباقی تھا کہ بیچ میں پاناما �آگیا۔مَیں آج سوچتا ہوں تو مجھے وہی فیصلہ درست لگتا ہے، جس میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پاناما پر مقدمے کے لئے درخواست کوقبول کرنے سے انکا رکر دیا تھا۔ ہمارے سیاست دانوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے الزامات کا گند بنا دیا ہے، عدالتیں اگر اس گند گی سے باہر ہی رہتیں تو وہ اپنے لباس کو سفید رکھ سکتی تھیں،میں قائل ہوں کہ اداروں کے وقار کا تحفظ کبھی زبان بندی سے نہیں ہو سکتا ،جیسے مارکیٹنگ کے کسی ماہر نے کہا، کیا آپ اشتہار بازی کو مارکیٹنگ سمجھتے ہیں، نہیں،حقیقی مارکیٹنگ تو آپ کی پرفارمنس ہوتی ہے۔ جسٹس منیر کے دور سے لے کر آج تک عدالت کبھی سیاست سے باہر نہیں رہی اور اب یوں لگ رہا ہے کہ سیاست بھی عدالت سے باہر نہیں ہے۔


کیا عجیب صورتِ حال ہے کہ ہماری تمام سیاسی سرگرمیاں عدالتوں کے اندر قید ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان جب سیاسی طریقوں سے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہونے لگتے ہیں تو عدالتوں کو حصول کاذریعہ بنا لیتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے معاملہ انتخابی ٹریبونلز کے بعد مکمل طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں آتا تھا مگر عمران خان صاحب حلقوں میں دھاندلی سے آگے بڑھتے ہوئے منظم دھاندلی کا الزام سامنے لے آئے جو محض بدگمانی تھی۔ پاناما لیکس کے عدالت میں جانے کے بعد مسلم لیگ نون کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا، حالانکہ ہمارے بعض دوستوں کاخیال ہے کہ حکومتی سیاسی جماعت کے صبر کا پیمانہ کبھی نہیں بھرنا چاہئے، اس کی دلیل وہ دیتے ہیں’ کیونکہ وہ حکومت ہوتی ہے‘۔ اب معاملہ یہ ہے کہ حنیف عباسی صاحب ،عمران خان صاحب کو نااہل کروانے عدالت پہنچے ہوئے ہیں اور جہاں مسلم لیگ نون کی قیادت پر ایک قطری خط کی پھبتی کسی جاتی تھی وہاں اب خطوط راشدیہ زیر بحث ہیں۔ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کو ملنے والی مشکوک اور غیر قانونی فنڈنگ کا معاملہ بھی برس ہا برس سے زیر التوا ہے، اسے تاخیر کا شکار کرنے کے لئے توہین عدالت سے بھی گریز نہیں کیا جاتااور جب باقاعدہ عدالت لگتی ہے تو عمران خان صاحب ریکارڈ فراہم کرنے سے بھاگتے ہوئے ہائی کورٹس میں پناہ لیتے ہیں ۔ وہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو ایک رتی برابر مارجن دینے کے لئے تیار نہیں، مگر الیکشن کمیشن کے دائرہ کار سے فرار کے لئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ فنڈنگ کی تحقیق الیکشن کمیشن نہیں،بلکہ وفاقی حکومت کو کرنی چاہئے۔ عمران خان کی اسلام آباد کی حدود میں بنائی گئی سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل جائیداد کا معاملہ ان سے الگ ہے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ یہاں بھی عمران خان صاحب نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا اور کہا کہ ان کے فارم ہاوس کے ارد گرد رخت کاٹے جا رہے اور غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہے اور جب اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ سامنے آئی تو علم ہوا کہ خان صاحب کا بنی گالہ خود غیر قانونی تعمیرات کی تعریف پر پورا اترتا ہے اور اب اخباری اطلاعات کے مطابق عدالت اس امر پر غور کر رہی ہے کہ اگریہ تعمیرات گرائی نہیں جا سکتیں تو ان کو ریگولیٹ کیسے کیا جا سکتاہے؟ ہمارے ٹی وی چینلوں کے پروگرام اور سیاسی جماعتوں کے جلسے بھی عدالتوں کے ارد گرد ہی گھومتے ہیں۔


مَیں نہیں جانتا کہ مہذب معاشروں میں عدالتیں ناولوں کے کرداروں سے کتنی نظائر تلاش کرتی ہیں، مگر ہماری سپریم کورٹ میں ایسا بھی ہوا ہے، عدالتیں کبھی خود فریق نہیں ہوتیں وہ غیر جانبدارانہ تحقیق اور تفتیش کو تو ضرور یقینی بناتی ہیں اور حقائق کی تہہ تک پہنچتی ہیں،مگر بہرحال ایک جج ایک تھانے دار یا ایک فریق نہیں ہوتا۔ واٹس ایپ کالزکے بعدحسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقعے کی تصویر کے جاری ہونے تک بہت سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اسی دوران انہی واٹس ایپ کال کے ذریعے منتخب کئے جانے والے تفتیش کاروں کا رویہ بھی اہم ہے۔مَیں نے مسلم لیگ(ن) کے بعض ذمہ داروں سے پوچھا کہ کیا آپ جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو جواب ملا، جے آئی ٹی مفروضوں پر کام کر رہی ہے،اس کے پاس محض الزامات کا ڈھیر ہے، مگر ثبوت کوئی نہیں، حسین نواز نے جس طرح پیش ہو کے صفائی دی ہے اس کے بعد بعض حلقوں کی کوشش یہ ہے کہ معاملے کو لٹکا دیا جائے تاکہ حکمران خاندان کو کبھی کلین چٹ نہ مل سکے اور اسی صورتِ حال میں عام انتخابات کا موقع آجائے۔ عمران خان اور ان کے حواریوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ اپنی ناقص ترین کارکردگی کی بنیاد پر وہ الیکشن جیتنے کے اہل نہیں، لہٰذا وہ صورتِ حال کو زیادہ سے زیادہ اپنے موافق رکھنا چاہتے ہیں، وہ یہ تاثر بھی دینا چاہتے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کی تمام تر غیر جانبداری کے باوجود ایک اسٹیبلشمنٹ ابھی ایسی ہے جو شریف خاندان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ عمران خان نے اس ساری صورتِ حال میں صرف ایک فائدہ اٹھایا ہے کہ اینٹی نواز شریف ووٹ کو اپنی طرف پوری طرح راغب کر لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان سے نذر محمد گوندل تک پیپلزپارٹی کو چھوڑنے والوں کی آخری آرام گاہ تحریک انصاف بنتی چلی جا رہی ہے اور جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آئے گا نواز شریف کے حامیوں اور مخالفوں میں ون ٹو ون تقسیم مزید واضح ہو جائے گی، اس تقسیم میں آصف علی زرداری، سراج الحق اور چودھری شجاعت حسین جیسے پوری طرح نفی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مجھے یہی تاثر ملا کہ مسلم لیگ(ن) اس معاملے کولٹکانے کے حق میں نہیں، وہ کلین چٹ چاہتی ہے۔


کیا مسلم لیگ(ن) کو کلین چٹ مل سکتی ہے تو اس کا امکان مشر ف دور سے موجود الزامات کے ثبوت نہ ہونے کے باوجود ابھی تک ففٹی ففٹی ہے، حکمران خاندان ہی نہیں، بلکہ مُلک میں جمہوریت اور سیاست کے لئے ایک بڑا دھچکا یہ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ مزید ایک وزیراعظم کی قربانی لے لے، میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دے، لطیفہ تو یہ ہے کہ عدم مقبولیت کے خوف میں مبتلا پیپلزپارٹی بھی عمران خان کے ساتھ مل کر اسی شاخ کو کاٹ رہی ہے جس پر خود اس کی اپنی زندگی کا انحصار ہے، مگر بہرحال پاکستان میں وہ جمہوریت ہے جس میں سب سے کمزور حکومت ہوتی ہے۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا صرف نواز شریف نااہل ہوں گے، عمران خان بچ جائیں گے تو کہا جا رہا ہے کہ نااہل کرنے والے اپنے تئیں اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے لازمی طور پر عمران خان کو بھی نااہل کریں گے۔ نواز شریف تو اپنی سیاسی محنت اور اثاثہ شہباز شریف یا مریم نواز کو سامنے لاتے ہوئے بچا لیں گے، مگر عمران خان کے پلے کیا رہ جائے گا۔ سیاست دانوں نے سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جا کر اپنے آپ کو بند گلی میں قید کر لیا ہے حالانکہ یہ تمام معاملات پارلیمنٹ میں کہیں بہتر طور پر طے کئے جا سکتے تھے۔


سیاست کے طالب علم اور جمہوریت کے خیرخواہ ہونے کی حیثیت سے میری رائے تو یہی ہے کہ جہاں سیاست دانوں کو سیاسی لڑائیاں سیاسی میدانوں میں ہی لڑنی چاہئیں وہاں عدالت کو سیاست میں شریک نہیں ہونا چاہئے،ان معاملات کو دور سے ہی سلام کردینا چاہئے، یہ عین ممکن ہے کہ آپ کسی اور قانون اور کسی اور خیال میں مقدمے کا فیصلہ کر رہے ہوں اور مورخ آپ کے فیصلے کو کسی دوسری نظر سے دیکھ رہا ہو۔ اگرمیرے بعض دوستوں کو میری بات سے اتفاق نہیں تو میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنی عدالتوں کے اس قسم کے تمام فیصلے اٹھا کے پڑھ لیں، اس قسم کے فیصلے صدیوں تک یاد رکھے جاتے ہیں، کیا ہم جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے بھٹو صاحب کی پھانسی اور مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار تک دینے کے فیصلے بھول گئے ہیں یا اس طرح کے فیصلے بھول سکتے ہیں؟

مزید :

کالم -