عالم کےبول۔۔۔فرقہ واریت کی فضا
پاکستان میں سب سے پہلے رمضان ٹرانسمیشن کو متنازعہ بنانے والی شخصیت کو اس بات پر فخر بھی ہے اور تکبر بھی۔در بدر ہوتے ہوتے وہاں پہنچ گے کہ واپسی نظر نہیں آتی۔جو کوئی خیر کو پھیلائے گا اس کواس میں عزت بھی ملے گی شہرت بھی،اور جوبرائی کا موجد ہوگااسکا سارابوجھ اسی کی گردن پر ہے۔مجھے یہاں نہ پیمرا کو مورد الزام ٹھہرانے کا شوق ہے،نہ حکومت کو کوسنے کا شوق ۔میں ایک پاکستانی ،اور ناظر ہوں،جوکچھ محسوس کرتا ہوں اس کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ساحر لودھی سے لے کر عامر لیاقت تک،اور جیو سے لے کربول تک میں کس کو داد دوں ۔میرا بیٹا ،بیٹی ،میرے ساتھ بیٹھ کر جب مجھ سے یہ سوال کریں بابا یہ کیوں چیخ رہا ہے ،اور بولے جا رہا ہے۔میں اس کو کیاجواب دوں ۔یہ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں میرے اور آپ کے نوخیزوں کے ساتھ۔ان کا صبر برداشت کا درس دینے والا مہینہ ہے ،اور اس نے یہ درس لیا اور دیا ہے۔بظاہر مہذب ،معتبر،سنجیدہ نظر آنے والے علما اکرام چند لمحموں بعد دست وگریبان ہوتے نظر آئیں گے تو میں کس کو کہوں گا کہ یہ ہمارے علما ہیں ۔رمضان کے نام پر منجن بیچنے والے یہ جہلا ۔اینکر،جن کو نہ اخلاقیات کا پاس ہےنہ انسانیت کا درد،یہ وہ خون خار بھیڑیے ہیں جن کو امت کے بدن سے رستا خون دیکھ کرتسکین ہوتی ہے۔بانٹ ڈالو ان کو وہابیت ،بریلویت ،دیوبندیت،اور شعیت میں ،نکال دو جنازہ مسلمانیت کا،یہ مل بیٹھ کر انسانیت کا نہ سوچ سکیں۔ان کو آٹھ اور بیس کے چکر میں ایسا پھنساؤ کہ مل بیٹھ نہ سکیں ،اتنی گہری خلیجیں کر دو کہ رب کو بھی ماننے کو تیار نہ ہو۔ان کے ناموں مسلکوں اور سوچوں کو اتنا دور کر دو کہ امن کا درس نہ سکیں۔ان کو ایسا خریدو کہ تمہارے سامنے پر نہ مار سکیں ۔آخر کب تک ہم اپنی خاص سوچ کو لے کر اس پاکستان کو تقسیم در تقسیم کرتے رہیں گے۔اتقاق ، اتحاد ،امن ، سکون محبت ،یگانگت،اور پیار کو نفرتوں کی بھٹی میں جلا جلا کر اس کو خاکستر کرتے رہے گے۔آج اہلحدیث عالم نے اچھا جواب دیا ،مخالف کا منہ بند کرا دیا کل دوسرا اس کی کاٹ کرے گا،پرسوں تیسرا نشتر لیے کھڑا ہو گا۔آخر کب تک ہم بانٹیں گے۔ ،فساد کو ہوا دے کر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر داد بھی لیں گے اور ریٹنگ بھی،کیا علما کو لڑا کر ہی ریٹنگ آسکتی ہے۔ہم کس کےخلاف رد الفساد کر رہے ہیں ۔خدارا فساد کو اور فرقہ واریت ،مسلکیت ،کی دل دل میں مزید کتنا دھکیلو گے میری نسل نو کو اور جہالت،کو علمیت،اور ڈاکٹریٹ کا چوغہ پہنا کر چرب زبانی سے کب تک تقسیم در تقسیم کروگے۔علما کی تضحیک،اور ان کے ساتھ بازاری زبان اور چلا کر ان پر اپنی دھاک بیٹھائی جا سکتی ہے۔لیکن میری قوم کو بانٹنا جاتا رہے گا۔خدرا میں تھک چکا ہو ،لاشے اٹھا اٹا کر،ان نفرتوں کے گھاؤ کھا کھا کر۔ مجھے ایک انسان اور سادہ سا مسلمان ہی رہنے دو نہ بانٹوں مجھے ٹکڑوں میں کہ پھر جڑ نہ سکو۔۔۔۔۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔