فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر444

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر444
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر444

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ثریا خانم اب ایک ’’قصہ پارینہ‘‘ بن چکی ہیں۔ کیبل ٹی وی سے کبھی کبھی ان کی پرانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں ارو ان کے پرستار اورپرانے فلم بین ان کے بارے میں بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں ۔پرانی فلمیں ہی اب ویڈیو اور کمپیوٹر کی مدد سے پرانے فلمی ستاروں کو آج کی نسل سے متعارف کرانے کا ذریعہ رہ گئی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر ٹیلی وژن اور ویڈیو کی مدد حاصل نہ ہوتی تو ہماری پرانی فلموں ‘ فلمی ستاروں اور مایہ ناز ہنر مندوں کے بارے میں کون جانتا اور ان کی عظمت اور خدمات کا کس طرح احساس کیا جاتا؟
پچھلے دنوں ثریا کی ایک پرانی فلم دیکھی تو اس سنہرے دور کی یادیں تازہ ہوگئیں جو اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ گزرا ہوا زمانہ لوٹ کرنہیں آتا اور نہ ہی وقت کا پہیا الٹا چل سکتا ہے۔ خاص طور پر اب جبکہ ساری دنیا کی سوچ ‘ شکل صورت اور طور طریقے ہی بدل گئے ہیں تو اس ماحول اور ان کرداروں کادوبارہ جنم لینا ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ وہ پرسکون دور تھا جب اخلاق ‘ مروت اور شائستگی ہماری اقدار کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ اب نہ وہ زمانہ رہا ۔ نہ وہ لوگ اور نہ ہی وہ قدریں ۔ روایات بدل گئی ہیں صرف قصے اور کہانیاں باقی رہ گئی ہیں۔ 

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر443 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اللہ اللہ ۔ ثر یا کا بھی کیا دور تھا اس زمانے میں گانے والے ستارے انگلیوں پر ہی گنے جاتے تھے اور ان کی قدرو قیمت بے اندازہ کی جاتی تھی ۔ گلوکارائیں اور مغنیائیں ایک سے بڑھ کر ایک موجود تھیں مگر ایسی فنکارائیں جو سپر اسٹار ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی گلوکارہ بھی تھیں انگلیوں پر ہی گنی جا سکتی تھیں۔ مثال کے طور پر ثریا ‘ نور جہاں ‘ خورشید بانو بمبئی کی فلمی دنیا کے ممتاز نام تھے جو دونوں شعبوں میں مہارت رکھتے تھے ۔ ان میں نور جہاں اور ثریا کو بہت زیادہ نمایاں حیثیت حاصل تھی ۔ خورشید بانو وہی ہیں جن کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ جنہوں نے ’’تان سین ‘‘ جیسی فلم میں ایسے نیم کلاسیکی نغمے گائے تھے جو آج بھی ویسے ہی مدھر ‘ پرُ اثر اور ددلوں کے اندر تک پہنچ جانے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ فلم بینوں نے یہ فلم دیکھی تو انہیں یہ محسوس ہوا جیسے کہ وہ جس تان سین کے بارے میں پڑھتے اور سنتے رہے ہیں وہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ ‘ایل ‘ سہگل کی صورت میں اسکرین پر نظر آرہا ہے ۔ تان سین کی محبوبہ ’’تانی ‘‘ کا جو نقشہ فلم بینوں کے ذہنوں میں تھا خورشید بانو کی گائیکی ‘ اداکاری اور جاذبیت نے اسے ایک سراپا بنا کر ان کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ 


کلکتہ میں کانن بالا ایسی اداکارہ تھیں جو اول درجے کی گلوکارہ بھی تھیں۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ بنگلہ اور اردو دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کرتی تھیں اور گاتی بھی تھیں۔ ان کی اردو فلموں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے نیو تھیٹرز کی فلموں ہی میں کام کیا تھا۔ ایک فلم ’’جواب ‘‘ واقعی لاجواب فلم تھی ۔ اس کے ہیرو بروا تھے جو کہ اعلیٰ درجے کے ہدایت کار بھی تھے ۔ انہوں نے کئی اردو فلموں میں اداکاری کی جوہردکھائے اور داد حاصل کی ۔ وہ حقیقی نظر اور سادہ اداکاری کرتے تھے اور سچ مچ کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے تھے۔ فلم ’’جواب‘‘ میں کانن بالا کا گایا ہوا ایک نغمہ آج بھی ہمیں یاد ہے اور اس فلم کے کچھ حصے بھی ایک خواب کے مانند دھندلے دھندلے سے آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں ۔ ہم نے فلم نو عمری میں دیکھی تھی امگر اس کاتاثر اتنا بھرپور تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے کل کی بات ہے۔ 
کانن بالا نے اس فلم میں ایک گیت گایا تھا جس کے بول یہ تھے۔ 
اے چاند چھپ نہ جانا 
جب تک میں گیت گاؤں 
یہ ساز زندگی کا 
جی بھر کے میں بجاؤں 
اے چاند چھپ نہ جانا
یہ سادہ سی دل میں اترجانے والی طرز اور فلم کا وہ منظر آج بھی ہمارے ذہن کے پردے پر فلم کی طرح نظر آتا ہے۔ منظر یہ ہے کہ فلم کے ہیرو کے ’سی‘ بروا اپنی یاد داشت کھو چکے ہیں۔ جس گاؤں میں پہنچتے ہیں وہاں ان کی ملاقات کانن بالا سے ہوتی ہے جو ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہیں۔ بروا کھوئے کھوئے سے آدمی ہیں۔ انہیں اپنے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ منظریہ ہے کہ بروا کو سلانے کے لیے کانن دیوی یہ لوری نما گیت گاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں اوروہ نیند کی آغوش میں گم ہوجاتے ہیں۔ لوری کا یہ بھی ایک انوکھا انداز تھا کہ براہ راست سلانے والے کو مخاطب کرنے کے بجائے وہ چاند سے مخاطب تھیں۔ 


ہدایت کار نے چاندنی رات کا تاثر پیدا کرنے کرنے میں بڑی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ آسمان کے چاند سے ہم کلام ہو کر دراصل وہ اپنے زمین کے چاند سے مخاطب تھیں۔ اس زمانے میں ایسی ہی فلمیں بنا کرتی تھیں جواپنی نازک خیالی اور موضوع اور پیشکش کے انداز کے اعتبار سے یاد گار بن جاتی تھیں۔ نیوتھیٹرز ایک ایسا فلم ساز ادارہ تھا جس نے یکے بعد دیگرے کئی خوب صورت ‘ با مقصد اور آرٹسٹک فلمیں بنا کر سارے ہندوستان کو مسحور کر دیا تھا۔ ان کی ہر فلم میں کوئی مقصد اور پیغام ضرورہوتاتھا۔ بعد میں برصغیر میں آرٹ فلموں کے نام پر جو فلمیں بنائی گئیں وہ نیو تھیٹرز کی فلموں کے مقابلے میں اس اعتبار سے کم تر تھیں کہ نیو تھیٹرز کی فلمیں کمرشل ہوتی تھیں اور کاروباری لحاظ سے بھی کامیاب تھیں ۔ جنہیں ہر طبقے کے فلم بین سمجھ سکتے تھے اور ان سے پوری طرح لطف اندوز بھی ہوتے تھے ۔ یہ وہ فلمیں تھیں جن میں فلم بنانے والا اور فلم دیکھنے والا دونوں ہم ہم خیال اور ایک دوسرے کے ہم قدم ہوجاتے تھے ۔ افسوس کہ نیو تھیٹرز کی یہ مایہ ناز فلمیں اب ویڈیو پر بھی دستیاب نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ بھارت میں مل جاتی ہوں مگر پاکستان میں تلاش کے باوجود کہین سے حاصل نہ ہو سکیں۔
کلکتہ کے گلوکار اور اداکاروں میں پنکچ ملک بھی ایک نمایاں نام ہیں۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے موسیقار بھی تھے ۔کے اہل سہگل جیسے عظٰم فنکار کی متعدد فلموں کی موسیقی پنکج ملک ہی ترتیب دی تھی ۔ ایک فلم میں انہوں نے ایک تجریہ بھی کیا تھا کہ سہگل کے گائے ہوئے گانے خود اپنی آواز میں بھی ریکارڈ کیے۔ بازار میں دونوں آوازوں میں گائے ہوئے نغمات کے ریکارڈ فروخت ہوتے تھے ۔ مثال کے طور پر سہگل کا نغمہ ۔ 
اے کاتب تقدیر مجھے اتنا بتا دے 
کیوں مجھ سے خفا ہے تو کیا میں نے کیا ہے
حصے میں سب کی آئی ہیں رنگین بہاریں 
مایوسیاں لیکن مجھے شیشے میں اتاریں 
میں ہوں کہ سدا غم کا زہر میں نے پیا ہے 
(نوٹ .... یہ بول محض یاد داشت کی مدد سے لکھے گئے ہیں ۔ آخری بند میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے ) 
سہگل اور پنکج ملک دونوں اپنے عہد کے مقبول اور ممتاز گلوکار تھے اور ان دونوں کی آوازوں میں ایک ہی نغمہ سننے والوں کے لیے ایک سنسنی خیز تجربہ تھا۔ 
اسی طرح بمبئی میں سریندر ایک نمایاں اداکار اور گلوکار تھے۔ فلم ’’انمول گھڑی ‘‘ میں انہوں نے میڈم نور جہاں کے مقابلے میں ہیرو کا کردار کیا تھا اور اپنے نغمات بھی خود ہی گائے تھے مگر ایسے اعلیٰ فنکاروں کی تعداد بہت کم تھی۔ 
ثریا نے ریڈیو بچوں کے پرگراموں سے گلوکاری کا آغاز کیا تھا اور پھر بچپن ہی میں فلموں میں اداکاری کرے لگیں جس کا ذکر آپ سن چکے ہیں۔ ابتداء میں اپنی فلموں کے لیے ہی ثریا نے اپنی آواز مخصوص رکھی تھی لیکن بعد میں دوسری اداکاروں کے لیے بھی پلے بیک گیت گائے۔ ثریا کی شہرت کا آغاز دراصل فلم ’’اشارہ ‘‘ سے ہوا تھا۔ اس فلم کے ہیرو پر تھوی راج اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ ثریا نے اس فلم میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا۔ ان کے ساتھ ستیش کی جوڑی تھی جو فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتے تھے ۔ اس فلم میں ان کے دو گیت ان کی ہمہ گیر شہرت کا سبب بن گئے تھے ۔
یہ گیت آج بھی اسی طرح تروتازہ ہیں۔ 
پنگھٹ مرلیا باجے رے 
باغن میں کوئل بولی 
دوسرا گانا دوئیٹ تھا جس میں ان کا ساتھ ستیش نے دیا تھا۔ 
’’اسٹیشن ماسٹر ‘‘ اور ’’اشارہ‘‘ میں انہوں نے اپنے گانے خود اپنے اوپر فلمانے کے لیے گائے تھے ۔ ’’انمول گاڑی ‘‘ اپنے زمانے کی بلکہ ہر زمانے کی ایک ناقابل فراموش فلم ہے جس میں نور جہاں اور سریندر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے ۔ نوشاد کی موسیقی نے اس فلم کو امر بنا دیا تھا۔ ’’انمول گھڑی ‘‘ ایک رومانی کہانی ہے جس میں ایک ہی ہیرو سے دو ہیروئنیں محبت کرتی ہیں مگر وہ جس لڑکی کو پسند کرتا ہے وہ نور جہاں ہیں۔ اس فلم میں نور جہاں کے نغمات نے ہر چیز کو دھندلا کر رکھ دیا تھا حالانکہ ’’انمول گھڑی‘‘ میں ثریا کے تین نغمے بھی شامل ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ نور جہاں کے ہوش ربا اور غیرفانی نغمات کے باوجود ثریا نے بھی اپنی آواز کی الگ سے پہنچا کرادی تھی ۔ 
اس کے بعد ثریا کے عروج کا دور شروع ہوگیا۔ ثریا کو جن موسیقاروں نے بام عروج تک پہنچانے میں نمایاں حصہ لیا ان میں خوشاد ‘ خواجہ خورشید انور اور حسن لال بھگت رام قابل ذکر ہیں۔ ان ہنر مند باکمال موسیقاروں نے ثریا کو صحیح معنوں مین اوج ثریا تک پہنچادیا تھا۔ انل بسو اس ‘ ایس ۔ ڈی برمن اور غلام محمد نے بھی ان کی آواز کا بہت اچھا استعمال کیا لیکن آخر الذکر موسیقاروں کے ساتھ ثریا کی فلموں کی تعداد زیادہ نہیں ہے مگر ثریا نے ’’انمول گھڑی ‘‘ کے بعد عروج کی جانب جو سفر شروع کیا تھا وہ بتدریج آگے ہی بڑھتا رہا۔ (جاری

ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر445 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں