کردار کشی کیا ضروری ہے ؟
ہم لوگوں کی کردار کشی کیوں کرتے ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کے لئے ملبہ ہم پورے معاشرے پر ڈال کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں ۔۔ ہمہ وقت ہمیں یہی سننے کو ملتا ہے کہ جناب کیا کریں ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ہمیں یہیں رہنا ہے ۔ یہاں کے طور طریقے ہی اپنانے ہیں اس لئے ہمیں اسی طرح کا طرز عمل اپنانا ہوگا ۔۔
یہ سب کہتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ہماری شخصیت کو مسخ کرنا ، ہماری ذات پر کیچڑ اچھالنا ،ہم پر بے جا تنقید کرنا اور ہماری زندگی تباہ کر دینا اگر ہمیں ناقابل قبول ہے تو دوسروں کے لئے بھی یہ صورتحال خوشگوار ہر گز نہیں ہو سکتی ۔
ویسے تو کسی بھی قسم کی کردار کشی کی وجوہات بے شمار ہو سکتی ہیں لیکن کچھ وجوہات یا عوامل ایسے ہیں جنہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مصداق ہمیشہ اہم عہدوں پر فائز افراد ، طاقتور اور معاشرے میں قانون کو ہاتھ میں لینے والے لوگ تنقید اور کردار کشی سے بچے رہتے اور اپنی من کرتے ہیں ۔ بلکہ الٹا وہ ایسے افرد کی کردار کشی کر دیتے ہیں کہ وہ شریف آدمی ساری زندگی اپنی عزت بچانے کے لئے خاموشی اختیار کر لیتا ہے ۔
دوسری جانب جب آپ قابلیت ، اہلیت اور نیک نامی کے حوالے سے کسی بھی اچھے شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو پھر آپ اسکی ذات پر کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں کیونکہ یہ بہت آسان طریقہ ہوتا ہے ۔ کبھی کسی کے چھوٹے قد تو کبھی کسی کی سیاہ رنگت کا مذاق اڑایا جاتا ہے کبھی اسکے خاندان کو مشق ستم بنا لیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ایسے مظلوم افراد کا بھی کبھی دفاع نہیں کیا جاتا جو اس دنیا سے چلے گئے ہوں یا وہ معاشرتی اور معاشی طور پر کمزور ہوں ۔ پہلی صورت میں ہم قومی ائیر لائن کے کراچی میں ہونے والے حالیہ طیارے کی تباہی کی مثال لے سکتے ہیں ۔
جیسا کہ ہر مرتبہ یہ الزام پائلٹ پر لگا دیا جاتا ہے کہ پائلٹ نے ائیر کنٹرول عملے کی ہدایات پر عمل نہیں کیا ۔ پائلٹ ذہنی دبائو کا شکار تھا ، پائلٹ نے یہ کیا ، پائلٹ نے وہ کیا ۔ اب پائلٹ بے قصور ہونے کی باوجود اس لئے اپنی صفائی نہیں دے سکتا کیونکہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب بڑی مچھلیوں اور سیاسی بھرتیوں پر منتخب ہونے افراد کو بچا لیا جاتا ہے۔ سو یہ بھی ایک طرح کی کردار کشی ہے بلکہ ایک بہت بڑا گناہ ہے کیونکہ یہ بہتان ہے ۔
دوسری مثال بھی ہوائی جہاز کی ہی لے لیجئے کہ اس قسم کے جملے دیکھنے اور سننے کو ملے ’’ ہوائی جہاز میں موجود تمام افراد یقینا بدقسمت تھے، پتا نہیں کسی نے کیا قصور کیا تھا جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑا ؟ ‘‘ ۔’’ بس دیکھ لو بھائی بہت بری موت ہے یہ ، اللہ تعالی کا عذاب ہے ۔ ‘‘
’’ ہوائی جہاز میں سوار ماڈل برے کردار کی حامل تھی ، نازیبا لباس پہنتی تھی اسکی کیسی موت ہوئی ؟ اب باقی ماڈلز اور ایسی لڑکیوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔‘‘
یہ سب کمنٹس میں نے سوشل میڈیا پر پڑھے اور ساتھ ہی ساتھ مجھے یہ احسا س ہوا کہ ہم اخلاقی حوالے سے کس قدر پستی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہم مرحومین کے لئے بجائے دعائے مغفرت کرنے کےان کے شجرے کھنگالنے لگے ہیں ۔ ہم اتنا گر چکے ہیں کہ ہمیں اپنی آخرت بھول گئی ہے ، اپنے گناہوں سے ہم پہلو تہی کر رہے ہیں اور ہمیں اسکا احساس تک نہیں کہ اس گھٹیا طرز عمل سے متاثرہ خاندانوں کو کتنی اذیت ہو رہی ہے ۔
یہی صورتحال مشہور ماڈل قندیل بلوچ کی اپنے بھائیوں کے ہاتھوں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پر بھی دیکھی گئی ۔ میں نے میڈیا کے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اچھا ہوا یہ اسی قابل تھی اسکے بھائیوں کو یہ اقدام پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا اور یہ کہ میت کی حالت یوں تھی ووں تھی ۔
کیا یہ زندہ قوموں کا رویہ اور طرزعمل ہے ؟ ہم کسی کی جنت اور دوزخ کا فیصلہ کرنے والا کون ہوتے ہیں ؟ ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مخاطب کر کے فرمایا ہے ’’ اے میرے حبیب صلی اللہ و علیہ آلہ وسلم آپ ڈرانے والے ہیں ، لوگوں تک اللہ تعالی کے احکامات کو صاف صاف پہنچانے والے ہیں لیکن آپ کسی کے عمل کے جوابدہ نہیں ۔آپ سے کسی کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی ۔ ‘‘
اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا کہ ’’ مومنوں کا کام یہ ہے کہ اچھائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں لیکن بروز قیامت کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ہر کوئی اپنے عمل کا جواب دہ خود ہو گا ۔ ‘‘
ہم دن رات قرآنی آیات اور حدیثوں کا پرچار کرتے ہیں لیکن ہم غیبت کرتے ہیں نہ صرف زندہ لوگوں کی بلکہ مرحومین کی بھی ۔ ہم ایک منٹ نہیں لگاتے کہ دوسروں کی پگڑی اچھا ل دی جائے اب خواہ یہ سوشل میڈیا ئی مہم ہی کیوں نہ ہو ۔۔ خدارا ایسے طرزعمل سے باز آئیے قبل اس کے کہ آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو بے قصور ہوتے ہوئے بھی شخصیت کے مسخ ہوجانے کا تجربہ ہو جائے ۔۔۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔