صحافت ، صحافتی اخلاقیات اور ہماری ذمہ داری

صحافت ، صحافتی اخلاقیات اور ہماری ذمہ داری
صحافت ، صحافتی اخلاقیات اور ہماری ذمہ داری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے جہاں قوم کو تیزی کے ساتھ انفارمیشن پہنچانے اور باخبر رکھنے کا فریضہ انجام دینا شروع کیا ہے، اس پرقوم باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہے۔۔۔مشرف کے دور سے پہلے تو کسی نے انفارمیشن کی اس تیزی کا تصور بھی نہ کیا ہو گا۔۔۔یہ سب کچھ خوش آئندہونے کےساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پریشان کن کیوں؟؟؟ تو وہ اس لیے کہ نہ صرف چھوٹے بلکہ ہمارے بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس میں وہ صحافتی اخلاقیات پامال ہوتے نظر آتے ہیں جن کے بغیر صحافت اپنا معیار کھو بیٹھتی ہے۔۔۔ اس پر رہی سہی کسر آن لائن ٹی وی چینلز نے پوری کردی ہے۔۔۔جنہوں نے اپنی مادر آزاد کا مطلب تمام اخلاقی قدروں سے بلکہ قومی بیانیئے اور اپنے بین الاقومی امیج کی فکر سے بھی آزاد ہو جاتا ہے۔۔۔ اب جبکہ فلسطین آزادی کا مسئلہ کھڑا تھا اور قومی بیانیہ فلسطین کے حق میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وزیر اعظم بیان دے رہا ہے۔۔۔۔ اسلئے میں کسی آن لائن چینل کے کوئی صحافی فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں لوگوں کی توجہ اصل بیانیے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور خبری اہمیت کے نکات نظر انداز کرتے ہوئے صحافتی اخلاقیات کے خلاف لوگوں کی ذاتیات پر بات کرنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔۔

 کیا اس رپورٹنگ کو ہم ذمہ دارانہ رپورٹنگ کہہ سکتے ہیں؟؟؟ ہمارے صحافی اگر جرائم کو کور کرنے کے دوران اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکیں اور طیش میں آ کر کبھی ہاتھاپائی کرنے پہ آ جائیں اور کبھی لوگوں کے گھر، فیکٹریوں، گوداموں اور ریستورانوں میں بلا اجازت زبردستی گھس جائیں تو سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت کون سا ملک اور کون سا قانون دیتا ہے؟؟؟
ملک کے دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی افراط و تفریط ہے۔۔۔ کہیں طاقتور کے ڈر سے خبریں دبا دی جاتی ہیں اور کہیں قوم کی خیر خواہی میں اتنےآگےنکل جاتے ہیں کہ نہ لوگوں کی پرائیوسی کا خیال رکھ پائے اور نہ اپنے اختیار سے تجاوز کرنے کو روک پاتے ہیں۔۔۔
 تجزیہ اپنا اعجاز ہے لازمی
 ہم بہت گر گئے اپنے معیار سے
کسی قوم کی تعمیر میں ہمیشہ اس کے میڈیا اور صحافت کے میدان کے مجاہدوں نے ہمیشہ بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ قوم میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کا سہرا ہمیشہ صحافیوں کے سر سے مس ہو کر کسی اور کے سر بندھا ہے۔۔۔ پاکستان کا آج دنیا کے نقشے پر موجود ہونے میں مولانا محمد علی جوہر، علی خان اور ابوالکلام آزاد جیسے نام تاریخ کا حصہ ہیں۔۔۔ قوم میں تصور کو زندہ رکھنے اور مہمیز دینے میں شورش کاشمیری، مولانا مودودیؒ اور ایسے کردار بار بار ہمیں بھولا سبق یاد دلاتے ہی۔۔۔
موجودہ کمرشل ماڈل میں کام کرنےکےباوجودمطیع اللہ جان جیسےصحافیوں نےحق گوئی کی مثالیں قائم کی ہیں۔

آج ضرورت ہے کہ ہماری صحافت دوبارہ سے اپنے مشن اور اپنی اصل کو مہمیز دے۔۔۔جرأت، بہادری، حق گوئی و سچائی، ایمانداری، غیر جانبداری اور ملکی سلامتی و فلاح کے مطابق ترجیحات کا یقین کرتے ہوئے قوم کی فکری تعمیر بحیثیت اوپینئن لیڈر (Opinion Leader) کرنا شروع کردیں تو اس قوم کی بیداری کو کوئی نہ روک سکے گا۔۔۔۔سچ ہے کہ جس طرح 1947ءمیں اس قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی اسی طرح اس ملک کو ایک بیدار قوم کی ضرورت ہے۔۔۔۔ اس قوم کو بیدار کرنے، بیدار رکھنے اور پرامید رکھنے کے لئے باضمیر صحافت مطلوب ہے۔۔۔
مشہور امریکی صحافی جوزف پلٹزر صحافتی اقدار کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’خوشحالی اور اصلاحات کے لیے ہمیشہ جنگ کیجئے، ناانصافی اور بدعنوانی کو کبھی برداشت مت کیجئے، ہمیشہ تمام فرقوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ کبھی کسی ایک پارٹی کے موقف کی حمایت نہ کیجئے، عوام کا حق غصب کرنے والے اونچے طبقات کی مخالفت کیجئے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کیجئے، ہمیشہ عوامی بہبود کے لیے خود کو وقف کر دیجئے۔ غلط پر تنقید کرتے ہوئے کبھی مت ڈریں ، چاہے وہ امراءکی طرف سے ہو یا غرباءکی طرف سے ہو۔۔۔ قائد اعظم نے صحافتی شعبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ”صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمت کا موثر وسیلہ سمجھا جائے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -