مخلوق خدا کا خون گٹر میں
موضوع تو کوئی اور تھا لیکن اوپر تلے ساٹھ روپے پٹرول کی قیمت بڑھی تو پانی کا ٹینکر دو ہفتوں میں دوگنی قیمت پر ہو گیا۔ پس مجھے اس نامعقول موضوع کی طرف مجبورا آنا پڑا جس پر میں نے تنگ دستی کے ایام میں بھی کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ میری مراد مہنگائی سے ہے۔ آج عالم آسودگی میں اگر میں نے اس پر قلم اٹھایا ہے تو اس کی وجہ تنگ دست طبقے کی وہ چیخیں ہیں جو میں آپ اور دیگر آسودہ حال پچھلے چار سال سے دن رات مسلسل سن رہے ہیں۔ لیکن بے تکان اور بے سوچے سمجھے بولے جانا مہنگائی سے بھی بڑا مسئلہ ہے جس میں آج کے تمام جی ہاں تمام سیاستدان شامل ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ جس آہنگ اور لے میں آج ہم حکومت کی خبر لے رہے ہیں، سال دو سال بعد اگر ہم مقتدر قرار پائے تو کیا ہم وہ کچھ سن سکیں گے جو آج خود سنا رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس کوئی قرطاس عمل(working paper) نہیں ہے جسے عوام کے آگے رکھ کر وہ کہہ سکے کہ ہمیں منتخب کرو، ہم معیشت، خارجہ پالیسی، تعلیم، دفاع وغیرہ میں یہ کچھ کریں گے۔ میرے علم کے مطابق ہماری 75 سالہ تاریخ میں صرف 1970 کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایسا کیا تھا اور اس بھرپور طریقے پر کیا کہ اس کام کو متعدد جمہوری ممالک کے ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس موضوع پر آئندہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ آج جلدی جلدی کچھ تجاویز دینا پیش نظر ہے۔ شاید حکومتیں ان پر عمل کریں۔ ہر شعبہ زندگی میں پچھلی حکومت کے پیدا کردہ بحران کے باعث حکومتی کشتی آج بری طرح ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس عالم میں ساحل پر کھڑا شخص یہی کہہ سکتا ہے کہ کشتی کا کچھ بوجھ کم کردو۔ ملک کے انتظامی اخراجات اس ناقابل یقین حد تک بڑھ چکے ہیں کہ آمرانہ طرز حکومت اور استبدادی بادشاہت میں تو لوگ یہ کچھ سہہ لیتے ہیں، جمہوری زندگی میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں اس طرف توجہ کی تو تھی لیکن مقتدر حلقے ڈیڑھ سو سال سے اپنا ڈیڑھ پاؤ گوشت بچانے کی خاطر دوسروں کی بھینس مار دینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ 1990 میں حکومت نے سرکاری خرچ پر ضیافتیں بند کر دیں تو مخلوق خدا کو کچھ سکون ملا تھا۔ میں ہرگز نہیں بھول سکتا کہ صرف اس ایک پابندی کے کے نتیجے میں مرغی کی قیمت 65 روپے سے کم ہوکر 48 روپے کلو پر آگئی تھی۔ زندگی بھر اس ابلیسی نظام کا حصہ رہنے کے سبب مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کو سرکاری افسر کس بری طرح برباد کر رہے ہیں۔
سماجی رابطوں پر عوام جس وحشیانہ طریقے پر آج غضبناک ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ادھر یہ حال ہے سرکاری افسروں کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آج دن کو میریٹ میں منعقدہ کانفرنس میں کھانا کھایا جائے یا سرینا یا اسلام آباد کلب میں۔ موجودہ بحرانی کیفیت میں حکومت کے کرنے کے چند کام فوری نوعیت کے ہیں۔ ان کاموں کا نتیجہ بہت زیادہ مالیاتی استحکام کی صورت میں تو شاید نہ نکلے لیکن عوامی سطح پر لوگوں میں یہ اطمینان ضرور پیدا ہوگا کہ ان کے ٹیکس کم ازکم گٹر میں نہیں بہائے جا رہے۔ یادش بخیر! شہید ڈاکٹر عبداللہ عزام کہا کرتے تھے کہ سرکاری خرچ پر دعوتیں اڑانا مخلوق خدا کے ٹیکسوں کو اگلے دن گٹر میں بہا دینا ہی تو ہے۔ یہ کام اپنے ملک میں جس وحشیانہ طریقے پر جاری ہے، اس کی مثالیں عرب بادشاہت میں تو متعدد دفعہ دیکھنے کے مواقع ملے، لیکن ایسی مثال کسی اور ملک میں شاید نہ ملے۔
عام شہری کو میں نے جتنا غضبناک آج دیکھا ہے، اس سے قبل کبھی اتنا نہیں پایا، لہٰذا فوراً کرنے کا کام یہ ہے کہ وفاقی، صوبائی اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں عوامی خزانے سے کی جانے والی دعوتوں پر فوراً بے سوچے سمجھے پابندی لگا دیں۔اس مسئلہ کے متعدد پہلو ہیں۔ کئی مواقع پر یقینا اس کی گنجائش نکلتی ہے۔اس بارے میں تفصیلی تجویز میں آئندہ کبھی دوں گا لیکن فی الحال حکومتیں پابندی تو لگائیں۔ اس پابندی کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں روزانہ سینکڑوں ٹن مرغی اور گوشت گٹر میں بہنے کے بجائے مارکیٹ میں آجائیں گے۔ پورے ملک میں روزانہ بچنے والے اس گوشت کا وزن ہزاروں ٹن میں ہوگا۔ سرکاری سطح پر اس کی یوں بے مہار خریداری بند ہو جانے پر بہت بڑی رقم تو بچے گی سو بچے گی، آپ دیکھیں گے کہ صرف ایک ہفتے میں ان دو بنیادی چیزوں کی قیمتیں یکدم ایک تہائی تک کم ہو جائیں گی۔ یہ مفروضہ یا پیش گوئی نہیں، ماضی میں ایسے ہو چکا ہے۔
سرکاری ضیافتوں پر پابندی کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ان ضیافتوں میں صرف گوشت مرغی ہی تو استعمال نہیں ہوتے۔آٹا،چاول،دودھ،دہی، چینی،چائے، کافی، پنیر، مکھن، مشروبات، مسالے اور کئی درآمدی اشیاء گٹر میں بہائے جانے والے ہمارے خون کا حصہ ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف اس ایک پابندی سے ہماری درآمدی تجارت کا خاصہ بڑا حصہ کم ہو کر زرمبادلہ بچانے کا وسیلہ بنے گا۔ ان اشیا کی کھپت جب سرکاری دفاتر میں بند ہو جائے گی تو ان کا رخ منڈیوں بازاروں کی طرف ہو جائے گا۔ طلب اور رسد کا اصول لاگو کریں تو رسد بڑھنے اور طلب برقرار رہنے پر ان سب اشیاء کی قیمتیں قابل ذکر حد تک کم ہو جائیں گی۔
عام حالات میں یہ کام آسان نہیں تھا۔ جب پہلی دفعہ نواز شریف نے ضیافتتوں پر پابندی لگائی تو سرکاری افسروں کا ہیجان دیکھنے والا تھا۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، وقت حادثات کی برسوں پرورش کرتا رہتا ہے۔ ان درندوں کا ہیجان اس پابندی پر فوراً تو کچھ نہیں کر سکا تھا لیکن یہ لوگ عوامی نمائندہ حکومت کی بالفاظ دیگر تضحیک و تحقیر کرکے رائے عامہ کو گمراہ کرتے رہے اور بالآخر ان لوگوں نے ہر حکومت کو بازیچہ اطفال بنا ڈالا۔ آج عام حالات نہیں ہیں۔ آج یہ ہیجان عام لوگوں کے اندر ہے جس کا درجہ حرارت ناقابل یقین حد تک بڑھ چکا ہے۔ اور یہی وہ وقت ہے کہ ہماری تمام نمائندہ عوامی حکومتیں سرکاری حکام کے ذریعے ہمارا خون گٹر میں بہانے کا عمل روکیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ وفاقی، صوبائی اور دیگر دونوں حکومتیں سرکاری خرچ پر ہونے والی ان ضیافتوں پر فوری پابندی لگائیں گئی۔ یقینا بعض اوقات ان کی گنجائش نکلتی ہے۔ اس بارے میں اگلی دفعہ مفصل تجویز دینا پیش نظر ہے۔