قانون فطرت ہے کہ برا آدمی اچھے آدمی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا
مصنف : ملک اشفاق
قسط :20
میں حق کی تبلیغ سے با زنہ آﺅں گا:
اے ایتھنز والو! آج اگر آپ کہیں کہ آپ اینی ٹس کی بات نہ مانتے ہوئے سقراط کو اس شرط پر رہا کیے دیتے ہیں کہ سقراط اپنا وقت حقیقت کو تلاش کرنے میں صرف نہ کرے گا اور اپنا فلسفہ سچائی کا پرچار بند کر دے گا۔لیکن آپ حضرات یاد رکھیں سقراط آپ کی شفقت اور محبت کا شکریہ ادا کرتا ہے، لیکن میں ایسی کوئی شرط تسلیم نہ کروں گا جو مجھے نیکی کے درس سے روک سکے۔میرے جسم میں جب تک سانس ہے اور جسم میں تھوڑی بہت طاقت ہے میں حق بات کہنے سے کبھی باز نہیں رہوں گا۔
میری جس سے بھی ملاقات ہو گی، میں ان سے کہوں گا تم اس عظیم شہر کے شہری ہو جو اپنی طاقت اور دانش کے حوالے سے مشہور ہے، ہر ممکن کوشش کرتے رہو کہ تم دولت، شہرت اور مقام و مرتبہ میں خوب سے خوب تر ہو جاﺅ۔جو لوگ اہل علم ہونے کے دعویدار ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اچھائی اور نیکی کا علم ہے۔ میں ان کے علم کو پرکھوں گا۔ اس کے بعد میں انہیں احساس دلاﺅں گا کہ نیکی کا علم بہت قیمتی متاع ہے۔ میں ہر شخص سے ملوں گا۔ بے شک وہ بوڑھا ہو، جوان ہو، اس ملک کا رہنے والا ہو یا غیرملکی ہو اور انہیں حقیقت سے روشناس کروں گا۔ میں انہیں روح اور نفس کی پاکیزگی کا درس دوں گا۔
میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ نیکی نشوونما کر کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو جائے۔ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ خیر اور نیکی مال و دولت سے نہیں ملتی۔اگر میں نوجوانوں کو خیر اور نیکی سکھا کر خراب کر رہا ہوں تو پھر واقعی میرے نظریات اور کام خطرناک ہیں۔اگر کوئی شخص کہے کہ میں اس کے علاوہ کچھ اور کرتا ہوں تو وہ شخص جھوٹ کہتا ہے۔حضرات! اصل بات یہ ہے کہ آپ اینی ٹس کی بات تسلیم کریں یا نہ کریں، مجھے چھوڑیں، یا نہ چھوڑیں، لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں جو کام میں کر رہا ہوں، وہ صحیح اور درست ہے، میں اس سے قطع باز نہیں آﺅں گا۔ خواہ اس کے لیے مجھے کئی بار مرنا پڑے۔
بُرا شخص اچھے شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا:
حاضرین ! مہربانی فرما کر میری بات غور سے سنیے¿، شور نہ کیجیے اور میری بات میں مداخلت نہ کیجیے۔
آپ یقین کریں کہ اگر آپ لوگوں نے میرے جیسے شخص کو مار دیا تو میرے بجائے آپ خود اپنا نقصان کریں گے۔
مجھے میلی ٹس اور اینی ٹس ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ یہ لوگ ایسی طاقت ہی نہیں رکھتے۔
دراصل قانون فطرت اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ قانون فطرت ہے کہ برا آدمی اچھے آدمی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اگرچہ برا آدمی اچھے آدمی کو جان سے مار سکتا ہے، اس کو ملک بدر کر سکتا ہے، اس کے شہری حقوق ختم کر سکتا ہے شاید آپ لوگ خیال کریں کہ یہ بہت زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔
لیکن ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ اینی ٹس اور میلی ٹس جو کام کر رہے ہیں یہ کام بہت ہی شرم ناک ہے۔
اے ایتھنز والو! میں اپنا دفاع اپنے لیے نہیں کر رہا، جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں، میں آپ سے کہتا ہوں آپ ایسے گناہ کا ارتکاب نہ کریں یہ آپ کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔
اگر آپ لوگ مجھے مار ڈالیں گے تو پھر مجھ جیسا شخص نہیں ملے گا۔ میں تو چاہتا ہوں آپ جاگتے رہیں اگر آپ نے اینی ٹس کی بات مان کر مجھے سزا دی تو پھر آپ زندگی بھر سوتے رہیں گے اور آپ کو جگانے والا کوئی نہ ہو گا شاید آپ کو میرے بعد بیدار کرنے والا آ بھی جائے۔
لیکن میرے دشمنوں نے مجھ پر جو الزام لگایا ہے، وہ بہت ہی شرمناک ہے۔ یہ لوگ میرے خلاف ایک گواہ بھی پیش نہیں کر سکتے۔
جب کہ میں اپنی صفائی میں واضح شہادت پیش کر سکتا ہوں، میری نے کبھی کسی سے فیس نہیں لی، اس کا ثبوت میری غربت اور افلاس ہے۔
حضرات میں لوگوں کے پاس انفرادی طور پر جاتا ہوں، انہیں نصیحت کرتا ہوں اور زیادہ وقت اسی کام میں مشغول رہتا ہوں، لیکن ایتھنز کی اسمبلی میں نہیں آتا اور ریاستی عہدے داروں کو مشورے وغیرہ نہیںدیتا۔
اس کی وجہ میں آپ لوگوں کو کئی جگہوں پر بھی بتا چکا ہوں اور میلی ٹس نے اپنے الزام میں میرا مذاق بھی اڑایا ہے۔
کیوں کہ مجھ پر ایک روحانی اور الہامی نوعیت کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ کیفیت مجھ پر بچپن سے لے کر اب تک طاری ہوتی رہی ہے اگر میں کوئی ایسا کام کرنا چاہوں جو کہ شاید مجھے نہ کرنا چاہیے تو ایک غیبی آواز مجھے روک دیتی ہے۔ لیکن یہ آواز مجھے کوئی کام کرنے پر مجبور نہیں کرتی۔
اے ایتھنز والو! ایک بار آپ کو معلوم ہے میں سینٹ کا ممبر بھی رہا تھا، لیکن میں نے اس وقت بھی سچ کہنے سے دریغ نہیں کیا تھا۔ میں نے کبھی موت کے خوف سے ظلم کا ساتھ نہیں دیا۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔