تیرے سب خاندان پر عاشق... میرا سب خاندان ہے پیارے (شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

تیرے سب خاندان پر عاشق... میرا سب خاندان ہے پیارے (شفیق الرحمان کی مزاح سے ...
تیرے سب خاندان پر عاشق... میرا سب خاندان ہے پیارے (شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 قسط: 6

مزدور
کچھ دن ہوئے ہم نے ہوا کی لہروں پر چند شخصیتوں کا انٹرویو پیش کیا تھا۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ ضرور مقبول ہوا ہوگا۔ آج مزدور سے انٹرویو ہو رہا ہے۔ سامعین! کبھی آپ نے اس شخص پر بھی غور کیا جسے مزدور کہا جاتا ہے؟ غالباً نہیں! کتنے افسوس کی بات ہے۔ مزدور کے سینے میں بھی دل ہے اور اتفاق سے وہ دھڑکتا بھی ہے۔۔۔ اس میں جذبہ ہے، احساس ہے، تڑپ ہے۔ آج ہم زمانے بھر کی دکھیا اور سماج کی ستائی ہوئی روح کی پکار آپ کے کانوں تک پہنچائیں گے۔ سامعین! ہم نہیں چاہتے کہ کمزور دل خواتین و بچے اسے سنیں، کیونکہ یہ داستان اس قدر پردرد ہے کہ ابھی سے ہماری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ننھے منے بچوں اور خواتین کو ریڈیو سے ہٹا دیا جائے۔ 
مزدور سے ملک کی3 مقتدر ہستیاں انٹرویو کریں گی۔ پہلے جناب نقشین مرادآبادی آئیں گے جو مایہ? ناز قومی شاعر ہیں، پھر حضرتِ آوارہ گرد صاحب جو ہندوستان کے چوٹی کے ترقی پسند افسانہ نویس ہیں، آخر میں پنڈت چڑی لڑاوا لکھنوی تشریف لائیں گے، جن کے متعلق کچھ کہنا ان کی اور اپنی توہین ہے۔ ہم فقط یہ کہیں گے کہ آج کل کوئی سیاسیات پر قادر ہے تو وہ پنڈت صاحب ہیں۔ یہ لیجیے مزدور کمرے میں آ گیا، سلام کرو مائیکرو فون کو بھئی مزدور۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ شاباش۔۔۔! سامعین مزدور کا سلام شوق قبول ہو۔ وہ لیجے نقشین مرادآبادی بھی تشریف لے آئے۔ اب مکالمے آپ خود سنیے!
(شاعر کی آواز آتی ہے۔۔۔ )
”آ۔۔۔ اے غم دیدہ، خمیدہ روح کی پکار۔ مصیبت میں گرفتار۔ اے سماج کے شکار۔ تو ہے اپنی شکست کی آواز۔ بول۔ اے زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے۔۔۔ سرمایہ داری کے ستائے ہوئے۔۔۔ اور پھرتا کیوں ہے دربدرتو ہاتھ پھیلائے ہوئے!“ 
مزدور، ”ایں؟“ 
شاعر، ”آہ ناداں! انہیں گالیاں سمجھتا ہے۔۔۔ آہ ناداں۔۔۔ اف ناداں۔۔۔ ہائے ناداں
تو ہی ناداں چند کلیو ں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے “ 
مزدور، ”جناب کسی آسان سی زبان میں باتیں کیجیے۔ میرے پلے کچھ نہیں پڑ رہا!“ 
شاعر، ”تمہارے ابا کیا کرتے تھے؟“ 
مزدور، ”مزدور تھے!“ 
شاعر، ”اور دادا؟“ 
مزدور، ”مزدور!“ 
شاعر، ”اور بیٹا؟“ 
مزدور، ”وہ بھی مزدور ہے!“ 
شاعر، ”سبحان اللہ! تمہارا خاندان ہی مزدوروں کا ہے۔ میں تو مزدوروں پر جان چھڑکتا ہوں۔ ہمارا سب خاندان مزدوروں پر مرمٹا ہے۔ میں نے کیا کہا تھا۔۔۔؟مرمٹا ہے! ہاں ایک شعر عرض ہے، 
تیرے سب خاندان پر عاشق
میرا سب خاندان ہے پیارے 
مزدور، ”کیا کہا۔۔۔؟ پھر سے کہنا ذرا۔۔۔ دیکھیے صاحب میں۔۔۔“ 
شاعر، ”بس بس! ہشت! اچھا۔ کبھی وہ شعر بھی سنا؟
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہرخوشۂ گندم کو جلادو
سنا ہے کبھی یہ شعر؟
مزدور، ”نہیں سنا!“ 
شاعر، ”اور جب رات کی سیاہی رخصت ہوتی ہے اور صبح کا نور آسمان سے زمین تک لہریں مارتا ہے تو اس وقت تم کیا کرتے ہو؟“ 
مزدور، ”کیا فرمایا آپ نے؟“ 
شاعر، ”یعنی صبح کو کیا کرتے ہو؟“ 
مزدور، ”میں ورزش کرتا ہوں صبح اٹھ کر!“ 
شاعر، ”ورزش۔۔۔؟ چچ چچ۔۔۔! اور جب آفتاب عین نصف النہار پر ہوتا ہے اور زمین پر اپنی تیز کرنیں پھینکنے سے باز نہیں آتا۔ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں کن مشقتوں سے دوچار ہوتے ہو؟“ 
مزدور، ”کھانا کھا کر سو جایا کرتا ہوں!“ 
شاعر، ”اور جب شام کے دلفریب لمحے دن بھر کے تھکے ماندوں کو مسرت کا پیغام سناتے ہیں، اس وقت کس مصیبت میں گرفتار ہوتے ہو؟“ 
مزدور، ”اکھاڑے میں ورزش کرتا ہوں!“ 
شاعر، ”ورزش! ورزش! ہم بھی ورزش کرتے ہیں، لیکن ڈینگیں نہیں مارتے تمہاری طرح! صبح اٹھ کر ہم دو ڈنٹر پیلتے ہیں، پانچ بیٹھکیں نکالتے ہیں اور پندرہ مرتبہ لمبے لمبے سانس لیتے ہیں۔ شام کو ہم پچاس قدم تیزی سے چلتے ہیں!“ 
اناؤنسر، ”ہمیں افسوس ہے، نقشین صاحب نے اتنی دیر بھی لگائی اور ایک بات بھی کام کی نہ کی۔ خفا نہ ہوں نقشین صاحب! ہم بات خدا لگتی کہتے ہیں۔ (جاری ہے )

 "شگوفے " سے اقتباس