کوئی حادثہ ، کوئی واقعہ ، نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا ۔۔۔وہی چوٹ دل پہ لگی ہوئی ، وہی درد تیرا دیا ہوا

کوئی حادثہ ، کوئی واقعہ ، نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
وہی چوٹ دل پہ لگی ہوئی ، وہی درد تیرا دیا ہوا
اسے پیش کرمرےنامہ بر، یہ تھکی تھکی مری چشم تر
یہی ایک نامۂ مختصر ، نہ لکھا ہوا نہ پڑھا ہوا
ترا خط ہے یاکوئی زخم دل،کہیں مندمل،کہیں مستقل
کہیں خون دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
کوئی محو حسن وجمال تھا کہ کمال شوق وصال تھا
لب اوج سدرۂ منتہیٰ ، نہ رکا ہوا نہ تھکا ہوا
تیرےمدرسوں میں کہاں رہی وہ دل وضمیرکی روشنی
تیری خانقاہ سے بوذری کا جلال کب کا ہوا ہوا
وہی بت فروشی و بت گری، وہی جرم شیوۂ آذری
وہی سامری ، وہی ساحری، وہی طور سر پہ اٹھا ہوا
یہ شرر شرر، رہ پر خطر، یہ شکستہ پر، یہ قفس کا ڈر
کبھی اسکے در، کبھی اسکے در، کبھی در بدرسا کیا ہوا
وہ حکایتیں ، وہ شکا یتیں ، نہ کہی ہوئی نہ سنی ہوئی
یہ جنوں کی آہ فلک رسا ، وہ چراغ حسن بجھا ہوا
اسے راس آنہ سکی کبھی سر میکدہ تیری بے رخی
وہی تیرا بزمی وہ بادہ کش ، نہ جھکا ہوا نہ بکا ہوا
کلام :سرفراز بزمی(بھارت )