ہم کچی بستیوں کے مکینوں کے متعلق یہ کہا گیا کہ ”یہ مسلمان کسی بھی لحاظ سے نیگرو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔“پھر ”ایک غیر ذمہ دار نفرت پرست فرقہ“  کا نام دیا گیا 

ہم کچی بستیوں کے مکینوں کے متعلق یہ کہا گیا کہ ”یہ مسلمان کسی بھی لحاظ سے ...
ہم کچی بستیوں کے مکینوں کے متعلق یہ کہا گیا کہ ”یہ مسلمان کسی بھی لحاظ سے نیگرو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔“پھر ”ایک غیر ذمہ دار نفرت پرست فرقہ“  کا نام دیا گیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:105
 آغاز غلامی ہی سے امریکی سفید فام نے ایسے منتخب نیگروز کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے جو تپتے کھیتوں میں مصائب بھگتنے والی بڑی تعداد کی نسبت ان کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں۔ سفید فام ان گھریلو اور زراعتی ملازمتوں پر مشتمل خاص نوکر رکھتا ہے جنہیں وہ نسبتاً زیادہ ٹکڑے ڈالتے ہوئے انہیں اپنے باورچی خانے میں کھانے کی اجازت بھی دیتا ہے جو اپنے ”اچھے آقا“ کی اپنی ذات سے متعلق خود ساختہ تصور نیکی و بھلائی کی اس کی توقع کے مطابق توصیف کرتے رہتے ہیں۔ ان گھریلو زراعتی نوکروں سے ”اچھا آقا“ ہمیشہ اپنی دل پسند باتیں سن سکتا ہے مثلاً آپ بے حد اچھے آقا ہیں!“ یا”اے آقا! یہ کھیتوں میں کام کرنے والے بوڑھے سیاہ نیگر اسی طرح خوش رہتے ہیں اے آقا! ان کے پاس اتنا ذہن ہی نہیں ہے کہ آپ ان کی بہتری کی کوئی کوشش کریں۔“
 فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ یہ گھریلو اور زراعتی نوکر ذرا مہذب ہوگئے ہیں اور بس اب جب سفید فام فون اٹھا کر اپنے گھریلو یا زراعتی کمی کانمبر ملاتا ہے تو اسے ان تربیت یافتہ سیاہ پتلیوں کو ہدایت دینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ وہ پہلے ہی ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ چکے اور اخبار پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا علم ہوتا ہے۔
 میں کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن اگر آپ1960ء کے نام نہاد نیگرو رہنماؤں کی فہرست بنائیں تو آپ کو ان کے ناموں کا خود ہی پتہ چل جائے گا جنہوں نے اپنے ”اچھے آقا“ کی طرف سے ہم پاگل محنت کش نیگروز پر حملے کرنا شروع کیے۔ اپنے آقاؤں کو یقین دہانی کروانے کے لیے سب سے پہلے تو ہم کچی بستیوں کے مکینوں کے متعلق یہ کہا گیا کہ”یہ مسلمان کسی بھی لحاظ سے نیگرو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔“ پھر ہمیں ”ایک غیر ذمہ دار نفرت پرست فرقہ“ کہا گیا اور کبھی یہ کہا گیا کہ”عین اس وقت جب نسلی تصور بہتر ہونا شروع ہوا۔۔۔۔ ایک نامناسب نیگرو تاثر“ وہ اپنا بیان دینے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے”ایک قابل نفرت معکوس نسل پرستی“۔۔۔۔”قدیم اسلامی فلسفے کے احمق دکھاوے باز“۔۔۔۔”عیسائیت مخالف مرتد“ وغیرہ وغیرہ۔
 ہمارے چھوٹے سے معبد نمبر7 کے ریستوران کا ٹیلی فون لگتا تھا دیوار سے ٹوٹ کر گر جائے گا۔ سارا دن تقریباً 5گھنٹے فون میرے کان سے لگا رہتا۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پریس کے لوگ سیاہ فام رہنماؤں کے بیانات پر مسلمانوں کا ردعمل جاننا چاہتے تھے۔ دوسرے میں شکاگو میں ایلیا محمد سے مزید ہدایات کے لیے رابطے میں رہتا۔ مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ میری بتائی ہوئی باتوں کے باوجود وہ تحمل کیسے قائم رکھتے تھے؟ کیونکہ میرے لیے تو خود پر قابو رکھنا بے حد مشکل ہو جاتا تھا۔ میرے گھر کے غیر مندرج(Unlisted) ٹیلی فون کا نمبر بھی لوگوں کو معلوم ہوگیا لگتا تھا میں جہاں جاتا ہوں فون بجنے لگتا ہے چونکہ نیویارک سٹی خبری ذرائع کا اہم ہیڈ کوارٹر ہے اور میں نیویارک میں ایلیا محمد کا وزیر تھا۔ اس لیے مجھے سان فرانسسکو سے مین حتیٰ کہ لندن، سٹاک ھوم اور پیرس تک سے آنے والی کالز بھی سننا پڑتی تھیں۔ اس سارے عرصہ میں دلچسپ بات یہ تھی کہ یورپ والوں نے ”نفرت“ کا سوال دوبارہ نہیں اٹھایا۔ صرف امریکی سفید کو”نفرت زدہ“ ہونے کے طاعون کا بھوت چمٹا ہوا تھا۔ اسی بات سے مجھے احساس ہوتا تھا کہ نیگروز سے نفرت پر وہ بھی ضمیر کی خلش میں مبتلا ہے۔
 اب تک مسلمان جس ”سفید شیطانی آدمی“ کی باتیں کرتے آئے تھے اب اس سے ہمارا حقیقی واسطہ پڑا تھا”جناب میلکم ایکس صاحب آپ سیاہ فاموں کی برتری اور نفرت کی تبلیغ کیوں کرتے ہیں؟“ میرے سامنے سرخ جھنڈی لہرائی جاتی اور میرا خون کھولنے لگتا۔ میں جواباً آگ اگلنے لگتا ”سفید فام خود احساس برتری کے جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ عزت مآب ایلیا محمد پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ سیاہ فاموں کو برتری اور نفرت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ سیاہ فام کی سوچ بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں معاشرتی اور معاشی حالت بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“ منافق دوغلا سفید فام آدمی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا جب ہمارے غلام آباواجداد سفید فاموں کے ساتھ بھائی چارے کی بات کرتے تھے انہیں مار دیا جاتا تھا اور اب ایلیا محمد جب علیحدگی کی بات کرتے ہیں تو انہیں ”نفرت کا مبلغ اور فاشسٹ“ کہا جاتا ہے سفید فام سیاہ فاموں کا وجود گوارہ نہیں کرتے۔ وہ ان طفیلیوں (Parasites) سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ وہ اس سیاہ فام نسل سے چھٹکارا چاہتے ہیں جس کی موجودگی اور حالت نے سفید فام کے کردار کو دنیا کے سامنے برہنہ کر دیا ہے۔ سوتم ایلیا محمد کے خلاف کیوں ہو؟“ میرے لہجے کی کاٹ گہری ہو جاتی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -