جب کراچی شہر کی تعمیر نو شروع ہوئی، صوبہ سرحد سے لو گ بڑی تعداد میں نقل مکانی کر آئے عمارتوں، سڑکوں کی تعمیر اور نالوں کی کھدائی والے کام سنبھال لیے

جب کراچی شہر کی تعمیر نو شروع ہوئی، صوبہ سرحد سے لو گ بڑی تعداد میں نقل مکانی ...
جب کراچی شہر کی تعمیر نو شروع ہوئی، صوبہ سرحد سے لو گ بڑی تعداد میں نقل مکانی کر آئے عمارتوں، سڑکوں کی تعمیر اور نالوں کی کھدائی والے کام سنبھال لیے

  

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:128
 پشتون 
جب شہر کی ایک طرح سے تعمیر نو شروع ہوئی اور نئے گھر، کالونیاں، دفاتر، فیکٹریاں اور تجارتی مراکز وغیرہ تعمیر ہونا شروع ہوئے تو افرادی قوت کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ایک دم ہر طرف اضافی مزدوروں، مستریوں اور دوسرے کاریگروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مقامی طور پر اس بڑھتی ہوئی مانگ کوپورا کرنا ممکن ہی نہ تھا۔دوسرا جس قسم کی مضبوط جسمانی قوت اور کام کا تسلسل تعمیراتی کاموں میں ضر وری ہوتا ہے وہ مقامی لوگوں خصوصاً مہاجروں میں مفقود تھا۔ کچھ تووہ اسے اپنی تہذیب اور تمدن کے خلاف سمجھتے تھے اور پھرنسبتاً کمزور جسمانی ساخت کی بدولت وہ یہ بھاری بھر کم اور مشقت طلب کام سہولت سے کر بھی نہ سکتے تھے۔
تب ہی صوبہ سرحد سے اچھے رزق اور بہتر زندگی کی تلاش میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسلسل کراچی پہنچنے لگی۔ان کے اپنے علاقوں میں روزگار کی بے حد کمی تھی۔ یہ سب پہاڑی علاقے کے باشندے تھے، جہاں محدود زرعی زمینیں تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزر کر تقریباً ختم ہی ہو گئی تھیں۔ وہاں کسی قسم کی کوئی تجارتی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں اورنہ ہی کوئی ملیں یا فیکٹریاں وغیرہ تھیں جو بے روزگار لوگوں کو کھپالیتیں۔انہیں باہر نکلنا ہی تھا۔جسم سے روح کا ناطہ قائم رکھنے کے لیے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر وہ لوگ بڑی تعداد میں کراچی کی طرف نقل مکانی کر آئے اور یہاں محنت مزدوری کا پیشہ اختیار کر لیا۔
کراچی کی عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر اور نالوں وغیرہ کی کھدائی والے کام انہوں نے سنبھال لیے۔ تعمیر سے تکمیل تک ہر کام میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔ یہ بڑے ہی جفا کش، محنتی اورجان لڑا کر کام کرنے والے لوگ تھے جو کئی کئی گھنٹے مسلسل کام میں لگے رہتے تھے۔ اور انتہائی تیزی سے اسے مکمل کرلیتے۔
 مستعدی اور طاقت کے ساتھ ساتھ پشتونوں کی وفا داری، بہادری اور ذمہ داری بھی ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔ چنانچہ صاحب ثروت افراد ان کو اپنے گھروں میں انتہائی ذمہ داری والی ملازمتوں مثلاً چوکیدار، ڈرائیور یا مالی وغیرہ کے لیے بھی بھرتی کر لیتے تھے جسے یہ بہ طریق احسن انجام دیتے تھے۔ ان کے آجر ان کے کام سے پوری طرح مطمئن رہتے اور ان پر ہر طرح کا اعتماد کرتے تھے۔
ان کی سخت محنت، ایمان داری اور وفا داری کی وجہ سے ہر کوئی ان کی خدمات حاصل کرنے کا خواہاں رہتا تھا۔ اس قسم کے زیادہ تر گھریلو ملازمین کے طعام و قیام کی ذمہ داری بھی صاحب خانہ نے اٹھائی ہوئی ہوتی تھی۔ یہ لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی بڑی سادگی سے بتاتے تھے اس لیے ان کے مالی حالات اپنے دوسرے مزدور پیشہ بھائیوں سے، جو باہر مزدوری کرتے تھے، قدرے بہتر ہوتے تھے۔پٹھان بہت دور سے روزی کمانے کی خاطر یہاں چلے آئے تھے، اس لیے ان کی پہلی ترجیح زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے اور پیچھے گھر بھیجنے کی ہوتی تھی۔ زیادہ تر لوگ اپنے خاندانوں کے بغیر تنہا ہی ہوتے تھے اس لیے وہ عموماً دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ مشترکہ رہائش کو ترجیح دیتے اورکھانا پکانا وغیرہ بھی سانجھا ہی رکھتے تھے۔ اس طرح کی شراکت سے ان کو کافی بچت ہو جاتی تھی اور پھر اپنے لوگوں کے بیچ میں رہنے سے خاندان سے دوری کا احساس اور پردیس میں رہنے کا دکھ بھی ذرا کم کم ہی محسوس ہوتا تھا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -